rki.news
ملا محمد حسن براہوی بلوچستان کے ان قدیم معماروں میں سے ہیں جو اردوادب کی ترویج و ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ملا محمد حسن براہوی پہلا صاحب دیوان شاعر ہے جس نے اردو ادب میں طبع آزمائی کی ان کا کلام “کلیات محمد حسن براہوی “کے نام سے 1838ء میں اشاعت پذیر ہوا جدید تحقیق سے یہ بات سامنے ائی کہ ملا محمد حسن براہوی سے قبل ایک اور شاعر “ارنڈو خان بوتانی” نے اپنی بلوچی شاعری میں دو اشعار اردو کے کہے تھے۔
بلوچستان واحد صوبہ ہے جس میں اردو،فارسی،بلوچی،پنجابی،پشتوبراہوی اور دیگر زبانیں نہایت فراوانی سے بولی جاتی ہیں۔
ملا محمد حسن کا اردوادب کا مطالعہ نہایت وسیع تھا امیرخسرو سے لیکر اپنے عہد کے تمام شعراء کو گہری نگاہ سے پڑھا تھاملا محمد حسن براہوی نے اردو کی توانا کلاسیکی روایات کو پوری حاکمانہ قدرت سے برت کر اپنی غزلیں کہیں جس میں ایک سرمستی،والہانہ پن،محبوب کے دل کش نقوش اور زلف یار کی مہکی ہوئی راتیں موجود تھیں ملامحمدحسن براہوی فطری طور پر رومان پسند شاعر تھے اس لیے ان کی شاعری میں میر اور درد سے زیادہ سودا کی شاعری کے نقش نظر اتے ہیں ملا محمد حسن براہوی فارسی کے بھی قادرالکلام شاعر تھےاس لیے ان کی شاعری میں زندگی برتنے کا ایک تہذیبی اور دل آویز رویہ موجود تھا۔
ملا محمد حسن براہوی حسن پرست اور جمال دوست شاعر تھے اردو شاعری کے مزاج کے حوالے سے ملا محمد حسن براہوی نے محبوب کو بظاہر جسمانی روح تک ہی محدود رکھا اس کی شاعری میں محبوب کے لبوں کی تعریف جس شکل میں ہوتی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:۔
ترے لب پہ جس کے لب نے لب رکھا،کہنے لگا
شہد ہے، شکرہے، شریں ہے، شکر گفتار ہے
ملا محمد حسن کا یہ طرزاظہار ایک صوتی تکرار کے باعث نہایت خوش گوار معلوم ہوتا ہے تو یہ دوسری طرف اس کیفیت کی غماز ہے جس میں لبوں کی شیریں زندگی شیرینی میں تبدیل ہوجاتے ہیں، انھوں نے خصوی طور پر لفظوں کے صوتی آہنگ اور ترنم کا ایسا اظہار کیا ہے جس میں رعنائیت روح کی آواز معلوم ہونے لگتی ہے شعر ملاحظہ فرمائیں:۔
کروں کیا وصف میں جو کیاہےدلبر
سمن بر ہے،سمن بر ہے، سمن بر
مرتب : شاہ فیضی
Leave a Reply