✍از قلم ثناء وقار : ساکن نواب پورہ اورنگ آباد مہاراشٹر ⚘میں مسلمان ہوں اور مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر اتحاد کا ایک حصہ ہوں🌹🌹مولانا عبدالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھاوہ 1888 میں مکہ میں پیدا ہوئے ان کے والد اپنے زمانے کے عالم دین تھے مولانا آزاد کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی جو مذہبی مزاج رکھتا تھا انہیں بچپن سے
مطالعے کا شوق تھا مگر ان کے والد کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ وہ کورس کی کتابوں کے علاوہ ادھر ادھر کی کتابیں پڑھیں اور وقت خراب کریں لیکن مولانا آزاد کا شوق کسی طرح کم نہیں ہوا وہ اپنا یہ شوق اس طرح پورا کرتے کہ اپنے جیب خرچ سے موم بتیاں خرید کر لاتے اور جب گھر کے تمام لوگ سو جاتے تو موم بتی جلا کر لحاف کے اندر پڑھتے اس سلسلے میں انہوں نے ایک مرتبہ لحاف بھی جلا دیا مولانا آزاد کی ادبی زندگی کا آغاز گیارہ بارہ سال کی عمر سے ہوا انہوں نےتیرہ برس میں فارسی کی تعلیم مکمل کی ان کا حافظہ بلا کا تیز تھا وہ پہلے شاعری اور بعد میں نثر کی جانب متوجہ ہوئے مولوی “عبدالواحد” نے ان کا تخلص آزاد رکھا اس کے بعد انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے شہرت ملی مولانا ابو الکلام نے پندرہ برس کی عمر میں “لسان الصادق” جیسے جریدے کی ادارت کی اور بیس سال کی عمر میں اخبار”الہلال” کے ایڈیٹر بنے اور بڑا نام پایا اس کے بعد “البلاغ” جاری کیا ان دونوں اخباروں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں مولانا کی خدمات ناقابل فراموش ہے وہ آزادی کی تحریک کے مجاہد تھے انہوں نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے اندر نفرت کےبیج بوکر انگریز اپنی حکومت مستحکم کرنا چاہتے ہیں مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا انہوں نے اپنے خطبات اور مضامین میں بھی یہ بتایا کہ مشترکہ تہذیب اور قومی یکجہتی کے تصور کو عام کیے بغیر آزادی ممکن نہیں اپنے سیاسی نظریات اور پرجوش صحافت کی وجہ سے مولانا کو کئی بار نظر بند کیا گیا مگر وہ بہادر اور نڈر سپاہی کی طرح وطن کی ازادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے مولانا آزاد سچے محب وطن تھے انہوں نے وطن کی آزادی کے لیے قید وہ بند کی پریشانی جھیلیں انہوں نے دو قومی نظریے کی مخالفت کی مسلمانوں کو تقسیم کے خطرات سے آگاہ کیا تقسیم کے بعد جو فسادات ہوئے اس سے وہ بہتر افسردہ تھے انہوں نے دہلی کی جامع مسجد میں ہندوستانی مسلمانوں کے ایک جلسے کو خطاب کیا اس تقریر کے ایک ایک لفظ سے درد مندی کا اظہار ہوتا ہے عزیزو ! ستارے ٹوٹ گئے تو کیا ہوا سورج تو چمک رہا ہے اس سے کرنیں مانگ لو اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دو, جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے اؤ عہد کرے کہ یہ ملک ہمارا ہے ہم اس کے لیے ہے اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری اواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے-” مولانا آزاد , مہاتما گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے بہت قریب تھے یہ دونوں بھی مولانا کی بہت عزت کرتے تھے انہیں اپنا قریبی دوست مانتے تھے اور ان سے مشورے کرتے تھے مولانا بڑی اچھی زبان لکھتے اور بولتے تھے- اس میں بڑی تاثیر تھی بہت اچھی اور زوردار تقریر کرتے تھے انگریز حکمران ان سے ڈرتے تھے جنگ آزادی کے دوران مولانا نے جو تقریریں کی ہے وہ بہت اہم ہیں- آزادی کے بعد وہ پہلے وزیر تعلیم بنے وہ تعلیم سے سماج میں تبدیلی لانا چاہتے تھے انسانی شعور کی ترقی کے لیے تعلیم کو لازمی سمجھتے تھے عورتوں کی تعلیم کے حامی تھے – انہوں نے ملک کے تعلیمی نظام کا تفصیلی جائزہ لینے کئی کمیشن قائم کیے انہوں نے جو بڑے ثقافتی ادارے قائم کیے ان میں ساہتیہ اکادمی’ سنگیت اکادمی اور للت کلا اکادمی مشہور ہیں- انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس (ICCR)ان کا قائم کیا ہوا ادارہ ہے- مولانا ابوالکلام آزاد کے مضامین’ خطابات’ مقالات اور مکاتب کے مجموعے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں- تذکرہ مقالات آزاد ‘ ترجمان القران ‘ اور غبار خاطر ‘ ان کی مشہور کتابیں ہیں-مولانا کا انتقال 1958 میں ہوا- مولانا ازاد کو ہندوستان کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا-مولانا بحیثیت انسان عظیم تھے انہوں نے ہمیشہ سادگی کی زندگی کو ترجیح دی- 11 نومبر کو حکومت ہند نے مولانا ابوالکلام آزاد کی یوم پیدائش کے موقع پر قومی یوم تعلیم منانے کا اعلان کیا ہے” ہم کو ایسا ہونا چاہیے کہ ہماری نسبت سے ہمارے خاندان کو لوگ پہچانیں! نہ کہ ہم اپنی عزت کے لیے خاندان کے محتاج ہو- مولانا ابوالکلام آزاد
Leave a Reply