ثناء وقار احمد
بی ایڈ، ایم اے (سائیکالوجی، انگریزی،اُردو)
نواب پورہ اورنگ آباد (مہاراشٹر)
یہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
(علّامہ اقبال)
(مطلب ایک سجدے کے اندر اتنی طاقت ہوتی ہے کہ بندہ ساری فکریں ختم کردیتا ہے)
ذہنی دباؤ یعنی اسٹریس (Stress) کا تعلق اردگرد رونما ہونے والے واقعات و حالات سے ہے ہماری زندگی میں جب کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو ہم اکثر ذہنی اور جسمانی ہیجان سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ جسے دباؤ یا اسٹریس کہا جاتا ہمارے جذبات کا ہماری صحت سے گہرا تعلق ہے یہ اعصابی دباؤ ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے زندگی میں ہر انسان کے ساتھ اچھے اور برے حالات پیش آتے ہیں اور ذہنی پریشانیاں انسان اپنے اوپر خود مسلط کرتا ہے لیکن اسلام ہمیں حالات پر صبر و شکر کرنا سکھاتا ہے اور صبر پر انعامات خداوندی کی بشارت دیتا ہے ذہنی پریشانیوں پر صبر نہ کرنا اور انہیں ذہن پر سوار کرنا اور ہر وقت فکر میں مبتلا رہنا اس کا اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔
انسانی جسم میں ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی بعض اوقات بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور ہم طرح طرح کی بیماریاں مول لیتے ہیں البتہ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ذہنی تناؤ، دباؤ کے نتیجے میں ہارمونوں کا بہت زیادہ پیدا ہونا جتنا خطرناک ہے اتنا ہی بہت کم پیدا ہونا بھی خطرناک ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب دماغ پر دباؤ پڑتا ہے تو جسم کے اندر مختلف عوامل بروئے کار آنے لگتے ہیں مثبت اور منفی جذبات کا تعلق ہتھیلی کے برابر ماتھے کے پیچھے دماغ کے ایک حصے پری فرنٹل کارٹیکس (Prefrontal) سے ہے یہ دماغی حصّہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم زندگی کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ر وز مرہ گزرنے والے واقعات کا مشاہدہ منفی طریقہ سے کرتے ہیں یا مثبت طریقے سے۔
ذہنی تناؤ محض ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے لیکن دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس پریشانی میں مبتلا رہتا ہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ”دنیا میں چالیس کروڑ افراد اس اسٹریس میں مبتلا ہیں، منفی خیالات اور منفی مزاج کے ساتھ امکان علالت اور مثبت مزاج کے ساتھ مزاحمت مرض ہوتی ہے۔ Stress یا ذہنی تناؤ کی علامات جیسے دھڑکن تیز رہنا، چڑ چڑا پن اور غصہ زیادہ آنا، سردرد رہنا، پٹھوں میں کھچاو رہنا، چہرے یا جسم پر کیل مہاسے ہونا، بھوک بالکل نہیں یا بہت زیادہ لگنا، تھکاوٹ، سستی اور نیند کے مسائل،بہت زیادہ پسینہ آنا، معدے کے مسائل جیسے قبض، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، ذہنی تناؤ اعصابی نظام کو کمزور کرتا ہے اور اعصابی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ B.P. متاثر ہونا وغیرہ جدید میڈیکل ریسرچ کے مطابق ذہنی تناؤ انسان کے اپنی شخصیت کا نتیجہ ہے۔ اگر آپ کو اسٹریس سے نجات چاہئے تو سب سے پہلی تبدیلی آپ کو خود میں لانا ہوگی۔ جب تک آپ اپنی ذات کو منیج (Manage) نہیں کریں گے،آپ کا اسٹریس کم نہیں ہوگا۔ سخت ذہنی تناؤ یا دباؤ دماغ کے حصوں کی ساخت کو متاثر کرتا ہے اور ذہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں جو بعد میں امراض قلب کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔اس تناؤ کے دور میں آپ جتنے بہترین طریقے سے خود منیج کریں گے، آپ کا اسٹریس اتنا ہی کم ہوتا چلا جائے گا۔
اسٹریس کم کرنے کے موثر طریقے :
عبادت کریں، ورزش کریں، گہری سانس لیں، اچھی غذا کھائیں، تیز رفتار زندگی میں ٹھہراؤ لائیں، مشاغل کے لیے وقت نکالیں، اپنے مسائل پر کُھل کر بات کریں، تناؤ کے محرکات کو ختم کریں، مثبت لوگوں سے میل جول رکھیں، خوشگوار سرگرمیوں کے لئے وقت نکالیں، اپنے آس پاس بہتری کے لئے جو کام آپ کے اختیار میں ہیں ان کے لئے لائحہ عمل تیار کریں، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر محدود خبریں دیکھیں، اپنی ترجیحات کا تعین کیجئے۔ انسان کے پاس سب سے قیمتی چیز ہے ایمان اور توکل ہے، اللہ پر یقین ہے۔ اس زندگی کو سپرد اللہ کریں گے تب ہی تناؤ کم ہوگا۔ زندہ دِلی زندگی کی توانائی ہے یہ انسان کے جِسم اور روح دونوں کو توانائی بخشتی ہے۔
قرآن کریم نے انسان کی بناوٹ و تکمیل اور اس کی شخصیت کے متعلق بہت سے حقائق کا ذکر کیا ہے۔ قرآن کریم نے انسان کے تزکیہ و تہذیب اور روحانی واخلاقی بیماریوں کے علاج کا بھی ذکر کیا ہے۔ اِسی طرح احادیث نبویہؐ میں بھی انسانی طبیعت اور فطرت، برتاؤ کے متعلق بہت سی معلومات کا ذکر ہے۔ اسلام کے احکامات اور ذہنی صحت اسلام سے رہنمائی حاصل کرکے آپ خاصی حد تک خود کو اضطراب سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اسلام کی عبادات اور تعلیمات پر چلنا ذہنی صحت کے لیے ایسا ہی ہے جیسا ایکسر سائز جسمانی صحت کے لئے۔ یعنی عبادات اور نیک معاملات ہماری روح کی غذا ہوتے ہیں جس طرح لوگ ایکسرسائز نہیں کرتے اور غذا کا خیال نہیں کرتے اور ذیابیطس، بلڈ پریشر کا شکار ہوتے ہیں۔اِسی طرح جب تک ایمان پختہ نہ ہو اور عبادات اور معاملات پر عمل نہ ہوتو ذہنی صحت پر اس کا اثر بھی نہیں ہوتا۔ نماز اسلام کی بنیادی عبادت ہے جس کی متواتر پیروی کی وجہ سے انسان کو سکون ملتا ہے نماز ذریعہ ہے اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کا اور مشکلات سے نجات کی رہنمائی حاصل کرنے کا اور اس ذکر سے تناؤ کم ہوجاتا ہے۔ نماز زندگی کو ایک ضابطہ میں ڈھال دیتی ہے۔
دُعا : مسلمان دُعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد، رہنمائی اور حوصلہ مانگتے ہیں تاکہ مشکلات کے پیش نظر آنے والی اداسی تناؤ، مایوسی اور اضطراب سے مقابلہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے دل کا حال شیئر کرنے سے بہت حوصلہ اور مثبت تقویت ملتی ہے، قرآن مجید کی تلاوت اور سمجھنے سے انسان کی روحانی اور احساسی نشوونما ہوتی ہے۔ آیات سے ہم سیکھتے ہیں حکمت علم، یقین اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کے بارے میں جس کی وجہ سے دل میں سکون اور جذبہ مضبوط ہوتا ہے۔
اللَّھمَّ رَحَمَتَکَ أرجُو فَلَا تَکِلْنِی اِلَی نَفَسِی طَرفَۃَ عَینِ وَاصْلِحْ لِی شَأنِی کُلَّہُ لَا اِلَہَ اِلَّا انْتَ: ”اے اللہ میں تیری رحمت کی اُمید رکھتی ہوں لہٰذا پلک جھپکنے کے لیے بھی مجھے اپنے آپ کے سپرد نہ کر اور میرے تمام معاملات درست فرما، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“
شکر: اسلام انسان کی توجہ ان بے شمار نعمتوں کی طرف بھی کراتا ہے جو ہر شخص اس دنیا میں پاتا ہے، اس طرح شکر کی طرف توجہ سے اپنے مسائل کا احاطہ کرنا بھی آسان ہوتا ہے اور مکمل زندگی کے پیش و خم کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے۔ صبر، اسلام کا ایک اہم رکن ہے اس کے ذریعے مسلمان سیکھتے ہیں، زندگی کے مسائل اور مشکلات میں اللہ سبحان تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے۔ اس سوچ سے انسان اپنی اداسی اور اضطراب کو کافی حد تک کم کرسکتا ہے۔
خود کا خیال : اسلام اپنے جسم اور ذہن کا خیال رکھنے پر بہت زور دیتا ہے کیونکہ صحت اللہ کی نعمت ہوتی۔ ان مثبت عوامل سے ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے اور سکون میں اضافہ ہوتا ہے۔
مثبت سوچ رکھنا : اسلام تمام انسانوں کو مثبت سوچ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی اُمید رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اس مثبت رحجان کی وجہ سے منفی سوچوں سے بچنا اور تناؤ، اداسی اضطراب کو قابو میں رکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات کافی اہم ہے کہ اگرچہ اسلام کی تعلیمات کی رو سے ذہنی صحت بہتر رکھنا آسان ہوتا ہے مگر ماہرین نفسیات کی ضرورت بھی شامل ہے خصوصاً جب مرض کی نوعیت سخت ہو ماہرین نفسیات سے مشورہ کرنا اسلام ماہرین نفسیات یا کسی بھی ماہر سے اپنے مسئلہ کی حل کے لئے رجوع کرنے سے منع نہیں کرتا بلکہ ماہرین سے مشورہ کی تلقین کرتا ہے۔ بہترین طریقہ نفسیاتی مشقیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علاج کرنا بہتر نتائج مہیا کرتا ہے۔
رسولؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایک ہی (یعنی آخرت کا غم اور فکر اختیار کیا اللہ تعالیٰ اس کے دنیا کے غم و فکر میں کفایت کریں گے اور جس کو دنیا کے بہت غم و فکر لاحق ہوگئے اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی فکر نہ ہوگی وہ دنیا کی وادیوں (یعنی گمراہیوں اور مشکلات) میں چاہے ہلاک ہوجائے۔
طویل ہے مسافت مگر منزل کا یقین ہے
آزمائش سخت ہے مگر وہ بھی تو رحیم ہے
Leave a Reply