Today ePaper
Rahbar e Kisan International

نظمیہ شاعری کا بانکا شاعر: احکم غازی پوری

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Friday, September 19th, 2025

rki.news

اردو نظم کی دو قسمیں ہوتی
ہیں  پہلی پابند نظم اور دوسری آزاد نظم. پابند نظم اس نظم کو کہتے ہیں جس میں قافیہ، ردیف اور بحر کے مقررہ اوزان کی پابندی کی جاتی ہے. پابند نظم میں نہ موضوعات کی قید ہوتی ہے اور نہ تعدادِاشعار کی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
دیگر اصناف سخن کی طرح نظم گوئی کی ابتدا بھی دکن سے ہوئی تھی.  دکن کے مشہور
و معروف صوفی شاعر حضرت بندہ نواز گیسو دراز کو اردو کا پہلا نظم گو قرار دیا جاتا ہے اور ان کی نظم ” چکی نامہ “ کو اردو کی پہلی نظم ہونے کا شرف حاصل ہے.
پیشِ نظر کتاب جناب احکم غازی پوری کی پابند نظموں کا تازہ کار مجموعہ ہے.اس سے قبل موصوف کی سات کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور  خاص و عام میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں جس میں تین  مجموعہ ء نعت اور چار مجموعہء غزلیات شامل ہیں.
موصوف کا خاندانی نام  صوفی محمد اسماعیل قادری،شیری اور قلمی نام احکم غازی پوری ہے. آپ 19/مارچ 1964ءکو مغربی بنگال کے گنجان آبادی والا شہر شیب پور، ہوڑہ میں پیدا ہوئے آپ کا آبائی وطن یوسف پور، محمد آباد، غازی پور ہے
دنیائے شعر و ادب اور اردو مشاعروں کے لیے آپ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے.
نظم عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پرونا یا لڑی بنانے کے ہیں. احکم غازی پوری نے اردو شاعری کے مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے اور کامیاب بھی رہے ہیں اب ان کی پابند نظموں کا مجموعہ بنام ” یہ ملک کہاں آزاد ہوا“ زیر ترتیب ہے.
پابند نظم بھی غزل ہی کی طرح بحر و  قافیہ  کی  پابند ہوا کرتی ہے. ابتدائی دور میں زیادہ تر پابند نظمیں ہی لکھی جاتی تھیں جس کی مثال چکبست، اقبال.نظیر اور جوش کی پابند نظموں سے ملتی ہے. کولرجؔ نے نظم کے بارے میں لکھا ہے ” کہ اس کا اساسی مقصد صداقت کی ترجمانی نہیں بلکہ مسرت کا ادراک ہے“ آیے موصوف کی نظموں کے چند اشعار برائے لطف پیش کرتے ہیں پھر گفتگو کرتے ہیں —
نظم۔۔۔۔۔یہ ملک کہاں آزاد ہوا
(1)
ہر روز یہاں مفلس کیلیۓ فرمان نیا ایجاد ہوا
یہ ملک کہاں آزاد ہوا یہ ملک کہاں آزاد ہوا
(2)
سرکار  ہماری  اندھی  ہے  یہ  لولی  ہے  یہ  لنگڑی ہے
عزّت کی یہاں کچھ مول نہیں انمول یہاں کی روٹی ہے
سب کے چہرے ہیں کمھلا ۓ پھر  کون یہاں پر شاد ہوا
یہ ملک کہاں آزاد
(3)
جاہل  قاتل  ریپر  بھی  اب  سنسد  میں آ جاتے ہیں
رادھے رادھے جۓ شری رام کے نعرے  خوب لگاتے ہیں
ان کے دم پر  ملک میں اپنے جم کر خوب  فساد ہوا
یہ ملک کہاں آزاد ہوا۔۔۔۔(4)
ذات دھرم کے نام پہ اکثر شور مچایا جاتا ہے
پیٹ کے بچّوں کو بھی اب نیزوں پہ گھمایا جاتا ہے
گلی محلہ کوفے جیسا ملک میرا بغداد ہوا
یہ ملک کہاں آزاد ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*********
نظم ——- لہو روتا ہے ہر انسان

(1)
جلّادوں کے ہاتھوں میں ہے جب سے ہندوستان
لہو روتا ہے ہر انسان لہو روتا ہے ہر انسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2)
چلتی ہے کس شان سے دیکھو  بے ایمانوں کی ٹولی
سچ کی جو   آواز   اُٹھاۓ کھاۓ   گا  وہ  گولی
شان سے دیکھو گھوم رہے ہیں لے کر تیر کمان
لہو روتا ہے ہر انسان۔۔۔۔۔
(3)
خوف نہیں سرکار سے ، انکی   خود کی ہے سرکار
کرتے ہیں معصوم پہ حملے  یہ ظالم ہر بار
بھیڑ لگاکر ظلم کریں  اور جیتیں یہ  میدان
لہو روتا ہے ہر انسان۔۔۔۔۔۔۔

***
مندرجہ بالا نظموں کے اشعار
سے شاعر کے جذبات و احساسات کا بھر پور اندازہ لگایا جا سکتا ہے. شاعر جو اپنے ماتھے کی نگاہوں سے دیکھتا ہے جو محسوس کرتا ہے اسی کو اپنی شاعری  کا آئینہ بناتا ہے.
موصوف کی نظمیں اپنے سینے میں درد، آنکھوں میں آنسو اور طبیعت میں اضطرابی کیفیت لیکر ایک بیاں بان شہر کے چوراہے پر کھڑی ہو کر زور زور سے چیخ رہی ہے اور یہ بتا رہی ہے کہ میں ” فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں“ لیکن یہ بے حس قوم جو اندھی بھی ہے اور بہری بھی اس کی آواز کو نظر انداز کر دیتی ہے.
آیے نظم فلسطین کے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں—————-
نظم۔۔ فلسطین
(1)
نقشِ   فردوس   ہوں    نورِ یٰسین ہوں
میں فَلسطَین ہوں میں فلسطین ہوں
——-
(2)
مجھکو کہتے ہیں سب انبیإ کی زمیں
ہیں سلیماں سے پُر کیف میرے مکیں
کسقدر  خوبصورت   ہے میری جبیں
میری صبحیں جواں ، میری راتیں حسیں
مظہرِ  علم   و   فن    مرکزِ دین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
——–
(3)
یہ   یہود   و   نصاریٰ     کا جوشِ جنوں
جس  نے  نا حق  کیا  نیک لوگوں کا خوں
سارے  عالم پہ چھایا ہے جس کا فسوں
جس نے  برسوں  سے   لوٹا ہے  میرا  سکوں
اس لۓ آج میں اتنا غمگین  ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
——-
(4)
بن  کے  غاصب  سرِ   عام بیچا  گیا
میرے خوں سے زمانے کو سینچا گیا
دار پر بھی کبھی مجھکو کھینچا گیا
قید  میں  طوق  پہنا  کے بھیجا گیا
وہ سمجھتے ہیں میں کوٸ مسکین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
********
نظم فلسطین کے مطالعے کے بعد وہ دم توڑتا ہوا خونی منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے. وہ چیختی ہوئی معصوموں کی لاشیں اور مظلوموں کے خون سے سرخ زمینیں ہمیں پیغام دیتی ہیں کہ ہم اپنے اصولوں سےبہت دور ہو گئے ہیں اور ہم نے اپنے رب کو ناراض کرلیا ہے.بہر حال
اردو ادب میں کل دو اصناف ہیں
پہلا اصناف شاعری اور دوسرا اصناف نثر
اصناف نثر میں داستان کے علاوہ تمام اصناف انگریزی سے ماخوذ  ہیں
اور اصناف شاعری یعنی (نظم) میں جتنے بھی ہیں حمد نظم، غزل مثنوی قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس مسدس مثمن، قطعہ، نعت، یہ سب صرف گیت دوہوں اور سانٹوں کو چھوڑ کر سب عربی فارسی سے مستعار ہیں آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ
ان تمام صنف شعری میں سب سے معروف صنف غزل ہے، جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا بھی مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، اقبال، جوش ملیح آبادی،  ساحرلدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی اور جون ایلیا نظم کے بڑے شاعروں میں شمار کیے جاتےہیں.
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جہانِ شعر و ادب سے پابند نظموں کی روایت آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے باوجود اس کے احکم غازی پوری ایک پابند نظموں کا مجموعہ لانے کا  مستحکم ارادہ رکھتے ہیں میں ان کے حوصلے کو سلام کرتا ہوں.
——آیے ان کی ایک اور نظم  ”غموں کی سوغات“   دیکھتے ہیں

وہ میری آنکھوں کو برسات دینے آیا ہے
غموں کی پھر مجھے سوغات دینے آیا ہے۔۔۔۔
بھلانا چاہا بہت میں نے اس کی یادوں کو
نہ روک پایا ان آنکھوں کے بہتے دھاروں کو
وہ چور کر گیا اک پل میں میرے خوابوں کو
سمجھ سکا نہ میں اس کے  وفا کی چالوں کو
وہ آج پھر شبِ ظلمات دینے آیا ہے
غموں کی پھر مجھے سوغات دینے آیا ہے۔۔۔۔۔۔
جفا و ظلم کی زد سے جسے بچایا ہے
صلہ یہ اپنی وفاٶں کا میں نے پایا ہے
رہِ حیات کا رستہ جسے دکھایا ہے
سلیقہ جینے کا میں نے جسے سیکھایا ہے
مجھے اجالوں کی خیرات دینے آیا ہے
غموں کی پھر مجھے سوغات دینے آیا ہے۔۔۔۔۔
*********
احکم غازی پوری کی شاعری اصل میں سہلِ ممتنع  کی شاعری ہے جو شعری اظہار کا سادہ ترین پیرایہ ہے.سنا ہے سہلِ ممتنع کی خاصیت رکھنے والی شاعری تا دیر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے. مجھے یقین کامل ہے کہ حلقہء شائقینِ ادب میں یہ نظمیہ شاعری کا مجموعہ  قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور پڑھا جائے گا.میں اس کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے جناب احکم غازی پوری کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کے روشن مستقبیل کے لیے دعا گو ہوں.
شمیم انجم وارثی (کولکاتا)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International