موجزن خواب کی زنجیر میں بےجان
سا بدن جو ترے انکار کی سولی
پر لٹک جانے کو تیار کھڑا تھا
کولھو میں جکڑے ہوئے بیل کی مانِند
سیم و زر خاک فقط دیدۂِ بے خواب
وعدۂ وصل کی جھوٹی سی تسلی
صبح ہوتے ہی جو آنکھوں کو کرے بند
شام تک دائرہ اطلاق میں پاگل
کی طرح گھومتے رہنا ہی سکھاتی
پھر جو نکلا نشۂ حسن کا یہ بھوت
میرے اندر سے کسی روح کی ہجرت
کی طرح دہر میں جینے کی تمنّا
کا گلہ گھونٹ بچھائے صفِ ماتم
لفظِ انکار کا دکھ جان گیا تھا
وہ جو بے مہر تسلی کا بھرم تھا
تُو بتا وہ ابھی ہے؟ حیف! نہیں ہے
ناصر زملؔ
Leave a Reply