ہو سبزی کھانے کو جی چاہتا ہے
کہ مرغا بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ غصّے میں ہیں تم اُدھر منہ گُھما لو
اگر مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جسے سن کے بیگم کو آتا ہے غصّہ
وہی گیت گانے کو جی چاہتا ہے
کئی دن سے ڈائٹ پہ ہوں مَیں سو ہر دن
کئی بار کھانے کو جی چاہتا ہے
حقیقت میں ہے درد جبڑوں میں تیرے
کہ غزلیں سنانے کو جی چاہتا ہے
کہا اس نے خود کو ہے جب سے مصیبت
مصیبت اٹھانے کو جی چاہتا ہے
نہیں ہے کوئی گھر میں سو گھر کی گھنٹی
مسلسل بجانے کو جی چاہتا ہے
گدھے سے محبت کا اظہار کر دو
مجھے گر جلانے کو جی چاہتا ہے
یہاں ایک چلّو سے بھی کم ہے پانی
“یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے”
یقیں ہے سنبھالیں گے راغبؔ وہ پھر سے
سو پھر لڑکھڑانے کو جی چاہتا ہے
افتخار راغبؔ
دوحہ قطر
Leave a Reply