(تحریر احسن انصاری)
ڈاکٹر محمد علامہ اقبال، جو جنوبی ایشیا کے سب سے عظیم فلسفی، شاعر اور سیاسی مفکرین میں شمار ہوتے ہیں، 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ، پنجاب (جو آج پاکستان میں ہے) میں پیدا ہوئے۔ انہیں “شاعر مشرق” اور “مفکرِ پاکستان” کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، اور ان کی وراثت نہ صرف پاکستان بلکہ پورے مسلم دنیا کی فکری اور ثقافتی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال کی خدمات صرف شاعری تک محدود نہیں ہیں؛ وہ ایک ایسے مفکر تھے جنہوں نے مسلم دنیا کی فکری اور روحانی تجدید کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی شاعری، جو زیادہ تر فارسی اور اردو میں ہے، اپنے لوگوں سے محبت اور اصلاح کے لیے ایک گہری خواہش سے لبریز ہے۔
اقبال نے “خودی” (خودیت) کے اپنے مشہور تصور کے ذریعے فرد کو ذاتی عظمت اور خود مختاری کے لیے کوشاں رہنے کی ترغیب دی۔
اقبال کی شاعری کی چند مشہور کتابیں جیسے بانگِ درا، بالِ جبریل اور پیامِ مشرق میں خود شناسی، اتحاد اور روحانی بیداری جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کا سب سے اہم فلسفیانہ خیال اسلامی فکر کی تجدید تھا، جو مسلم دنیا کی عظیم فکری وراثت پر مبنی ہو، اور مغربی فلسفے اور جدیدیت سے ہم آہنگ ہو۔
اقبال کی فلسفیانہ آراء صرف نظریاتی سطح تک محدود نہیں تھیں۔ وہ مسلمانوں کی فکری و سیاسی خود مختاری کے حامی تھے اور ان کے دور کے سماجی و سیاسی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے ہمیشہ با مقصد شاعری کی اور یہ ہی انکی شاعری کی زندہ مثال ہے۔ انکے فکر انگیز اشعار جو دور حاضر میں آج بھی انسان کی روح کو بیدار اور خون کوگرما دیتے ہیں۔
“خُدی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے”
“خُدا بندے سے خود پُوچھے، بتا، تیری رضا کیا ہے؟”
“ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں”
“تُو شاھی سے گزر، سلطنتوں سے بھی آگے”
“نہ تھا کچھ، کچھ بھی نہیں تھا، پھر بھی کچھ تھا”
“دھرتی سے بھی بلند، اور آسمان سے بھی بلند”
“خُدی کی محافل میں، دل کی آزمانش ہے”
“جو قلب کا راز ہو، وہ دل کی کنجایش ہے”
“جو تم پہ گزری ہے، وہ تمہاری تقدیر نہیں”
“پہلے خود کو پیدا کرو، پھر تقدیر کا کیا ہے؟”
اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا، جس میں وہ اپنے ایمان اور ثقافت کو آزادانہ طور پر محفوظ اور عمل میں لا سکیں۔ 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کے طور پر اپنے خطاب میں، اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے تصور کو پیش کیا۔ یہ خطاب پاکستان کے قیام کے تصور کی تشکیل میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اقبال کی بنیادی فکر مسلم شناخت اور اقدار کے تحفظ کے گرد گھومتی تھی، لیکن ان کا تصور صرف سیاسی خود مختاری سے آگے بڑھ کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جانب تھا جو اسلامی اصولوں جیسے انصاف، مساوات اور بھائی چارے پر مبنی ہو۔ پاکستان کے قیام میں اقبال کا اثر بہت گہرا ہے۔ ان کے فلسفیانہ اور سیاسی خیالات نے محمد علی جناح جیسے رہنماؤں کو متاثر کیا، جنہوں نے بعد میں پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اقبال کی علیحدہ وطن کے قیام کی حمایت اور اسلامی اقدار و تعلیمات کی اہمیت پر زور دینے والی سوچ نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔ آج، ان کی یومِ پیدائش پر اقبال کی وراثت کا تذکرہ نہ صرف ان کی کامیابیوں کا جشن ہے بلکہ یہ ان کے خوابوں اور وژن کی زندہ مثال بھی ہے۔ اقبال کی فکری خودمختاری اور فرد کی طاقتور بنانے کی پکار آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ 20ویں صدی کے آغاز میں تھی۔ پاکستان میں یہ دن تقریبات، مذاکرے اور شاعری کی محفلوں کے ذریعے منایا جاتا ہے جو ان کی قوم اور مسلم دنیا کے لیے کی گئی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ، اقبال کے خیالات کا اثر پورے مسلم دنیا پر پڑا ہے۔ ان کی تعلیمات پر زور دینے والی فکری تحریکیں مسلم دنیا میں جاری ہیں، اور ان کی سوچ فرد کی خودمختاری، تخلیقی صلاحیت اور اتحاد کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اقبال کے خیالات آج بھی عالمی مسلم کمیونٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کی یومِ پیدائش صرف ان کی کامیابیوں پر غور کرنے کا موقع نہیں ہے بلکہ یہ ان کے روحانی اور فکری وژن کی یاد دہانی بھی ہے۔ ان کی شاعری لاکھوں افراد کو متاثر کرتی ہے اور ان کے خیالات نے جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کی ثقافتی و سیاسی فضا پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ 9 نومبر کو ہم ان کی زندگی اور کام کو یاد کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کو ایک زیادہ منصف، دانشورانہ اور متحدہ دنیا کے قیام کے لیے ضروری سمجھیں۔
Leave a Reply