rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف نے گرینڈ بلوچستان جرگہ میں خصوصی شرکت کی اور اس موقع پر بلوچستان کے زخم زخم جسم پر مرہم رکھتے ہوئے کئی ترقیاتی اسکیموں کا اعلان فرمایا ہے، جو ایک اچھی اور قابلِ تعریف بات ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف فیلڈ مارشل جناب سید عاصم منیر نے یکجا شرکت کر کے بلوچستان کے عوام کو نیک نیتی سے بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی جو یقین دہانی کروائی ہے اس سے یہ امید جاگتی ہے کہ بلوچستان کی محرومی کا نا صرف ازالہ کیا جائے گا بلکہ بلوچستان کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو پونچھ کر اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ واپس لانے کے عمل کو ہمیشہ کی طرح روایتی سست روی کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جب زخم گہرا ہو تو مرہم میں تاخیر زخم کے ناسور بننے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، اور اگر زخم کی جلد اور تیزی سے بحالی مقصود ہو تو مرہم کی مکمل مقدار اور بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا فرضِ اولین بن جاتا ہے۔گرینڈ جرگے کے اسٹیج پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو دیکھ کر امید کی شمع تو روشن ہوئی ہے کہ شاید اس بار پوری نیک نیتی اور تندہی سے بلوچستان کے تمام مسائل کے حل پر توجہ دی جائے گی۔ ہمارے علم میں ہے کہ بلوچستان کے مسائل ان کو صرفِ نظر کرنے کی وجہ سے گہرے اور گھمبیر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ جب بے توجہی کی داستان کافی طویل ہو تو وہ توجہ کی بھی جامع نظر کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ صرف سیاسی نہیں ہے، بلکہ یہ انتظامی، معاشی، ترقیاتی اور بیروزگاری سے جڑے مسائل کا ایک ایسا گٹھ جوڑ ہے کہ جس میں سے کسی ایک سے بھی صرفِ نظر باقی مسائل کے حل ہونے میں بھی رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ محرومی کا احساس یہاں بچہ اپنی ماں کی گود سے محسوس کرنا شروع کرتا ہے۔ جب نہ پینے کو پانی میسر ہوتا ہے اور نہ پیٹ بھرنے کو کھانا، نہ گھر میں روزگار کی آس ہوتی ہے نہ تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے پہننے کی ۔ یہ سب محرومیاں ایک گُھٹی کی صورت اس کے حلق میں یوں جاتی ہیں کہ پھر ساری زندگی یہ محرومیاں ایک پھانس بن کر حلق میں اٹکی رہتی ہیں، جو نہ نگل سکتے ہیں اور نہ اگل سکتے ہیں۔ یہ محرومیاں اُس بچے کے بڑے ہونے کیساتھ ساتھ کئی روپ بدلتی جاتی ہیں، تعلیم سے محرومی، کاروبار سے محرومی، صحت مند زندگی سے محرومی، علاقے میں ترقی سے محرومی، اور ایک محرومی کئی محرومیوں کی وجہ بنتی چلی جاتی ہے۔ وہ ایک ایسے خوبصورت ماحول کا متلاشی رہتا ہے جو اس کو سکون سے زندگی گزارنے کا حق دے، جہاں وہ اور اس کا خاندان عزت سے زندگی گزارنے کے سپنے کو صرف سپنا نہ سمجھیں بلکہ حقیقت میں اس سپنے کو جینے کی خواہش پوری کر سکیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج بھی بلوچستان کا ایک بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے محروم اس اکیسویں صدی میں اٹھارویں صدی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان تمام محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر دشمن یہاں پر اپنے مطلب کی ذہن سازی کرنے میں مصروف عمل رہتا ہے۔ اس کا توڑ اُن تمام محرومیوں کا خاتمہ کرنا ہے جس کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ اتنا مشکل عمل نہیں ہے بس صرف اخلاص اور ہمدردی کی ضرورت ہے ۔ آپ محبت کے دو گھونٹ پلائیں اور جواب میں اس خطہ ء محبت بلوچستان سے بدلے میں پورا سمندر آپ کو ٹھاٹھیں مارتا موجزن ملے گا۔
وزیراعظم صاحب نے متعدد اسکیموں کے اعلانات بلوچستان کے ہر ہر شعبہ سے وابستہ سرکردہ زعماء کے سامنے فرمائے ہیں، جن میں بجٹ میں 250 ارب کا ترقیاتی فنڈز، معاشی ترقی کی امین سڑکوں کی تعمیر، طلباء کے روشن مستقبل کو اجاگر کرنے کے لئے لیپ ٹاپ اسکیم، ترقی کے لئے صوبے کو جاری فنڈز میں اضافہ کر کے محرومیوں کے ازالےکا اعلان، سب اعلانات نہایت خوش کن اور خوبصورت ہیں، گو اس میں مزید گنجائش کی ضرورت اب بھی باقی ہے، لیکن یہ اعلانات بھی اس بات کے بھی متقاضی ہیں کہ وزیراعظم کی زبان سے نکلے یہ اعلانات بہت جلد بلوچستان کے سینے پر عملی تفسیر بن کر سب کو دیکھنے بھی نصیب ہوں۔ بلوچستان اپنوں کی طرف دیکھ رہا ہے اس امید کیساتھ کہ اپنے آگے بڑھ کر، گلے لگا کر ان زخموں پر مرہم رکھیں گے جو ایک طویل عرصہ سے ناسور بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بلوچستان ایک تابناک، روشن مستقبل کا امین ہے، وہ صرف اپنوں سے اس توجہ کا متقاضی ہے جو ایک عرصے سے اس کو نہیں دی گئی۔ اس کے سینے پر موجود بڑے بڑے پراجیکٹس یہ پیغام دے رہے ہیں کہ صوبہ بلوچستان کا روشن مستقبل ایک ایسے دور کا آغاز ہوگا جس سے پورا ملک دنیا میں ایک جگمگاتے سنہرے دور کا نقطہ آغاز بن جائے گا۔ وقت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا اس طرف توجہ دینا ایک خوش آئند امر ہے ۔ یہاں کا ہر بچہ آپ کے وعدوں کے پورا ہونے کا متمنی ہے اور دعا گو ہے کہ اخلاص سے شروع کئے گئے اس کام میں اللہ کی نصرت شامل ہو اور ہم اس محاذ پر بھی بنیان المرصوص کی طرح ثابت قدم رہیں۔
Leave a Reply