ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com
وفاقی حکومت کی جانب سے این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے خیبرپختونخوا کو درپیش مسائل ایک طویل عرصے سے زیر بحث ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ (قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ) ایک آئینی فورم ہے جو صوبوں کے مابین مالیاتی وسائل کی تقسیم کا تعین کرتا ہے۔ ہر صوبہ اپنے حصے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ مالیاتی توازن قائم رہے اور ترقیاتی منصوبے بہتر انداز میں آگے بڑھ سکیں۔ خیبرپختونخوا کا اس حوالے سے موقف ہے کہ انہیں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں ان کا برابر حصہ نہیں دیا جا رہا، خصوصاً نئے ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے ان کی شکایت بجا ہے۔
این ایف سی ایوارڈ کی تاریخ پاکستان کی تقسیم سے ہی جڑی ہوئی ہے، جہاں آئینی طور پر وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کا ایک منظم طریقہ کار ترتیب دیا گیا تھا۔ 1973ء کے آئین کے تحت این ایف سی کا قیام عمل میں آیا جس کے ذریعے وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کا تعین کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد این ایف سی کو مزید مضبوط بنایا گیا اور صوبائی خود مختاری میں اضافہ ہوا۔ ساتواں این ایف سی ایوارڈ جو 2010ء میں طے پایا تھا، میں صوبوں کو حصہ ملنے کا نیا فارمولا متعارف کرایا گیا تھا۔ اس میں صوبائی محصولات اور آبادی کو معیار بنایا گیا اور صوبوں کو مالیاتی وسائل میں نسبتاً زیادہ اختیار دیا گیا تھا۔
خیبرپختونخوا کی حکومت طویل عرصے سے وفاق سے شکایت کر رہی ہے کہ ان کے حصے کا پورا حق ادا نہیں کیا جا رہا۔ خاص طور پر 25ویں آئینی ترمیم کے بعد، جب نئے ضم شدہ قبائلی علاقے خیبرپختونخوا کا حصہ بنے، صوبے کو مزید فنڈز کی ضرورت پڑی تاکہ ان علاقوں کو ترقی کے دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ تاہم خیبرپختونخوا حکومت کے مطابق وفاقی حکومت نے ابھی تک ان علاقوں کو این ایف سی ایوارڈ میں شامل کرنے یا مناسب فنڈز فراہم کرنے میں کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا۔
صوبائی وزیر خزانہ و بین الصوبائی رابطہ مزمل اسلم نے وفاقی وزیر خزانہ کو ایک خط میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ نئے ضم شدہ اضلاع کے لیے فنڈز فراہم نہ کرنا ناانصافی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کو اس وقت دہشت گردی اور سیکیورٹی کے سنگین چیلنجز درپیش ہیں، اور ایسے وقت میں مالی امداد روکنا صوبے کے مسائل میں اضافے کا سبب بنے گا۔
صوبائی حکومت کا موقف یہ ہے کہ جب تک خیبرپختونخوا کے آئینی حق کا مکمل حصہ این ایف سی ایوارڈ میں شامل نہیں کیا جاتا، ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ایکسٹنشن قبول نہیں کی جائے گی۔ حکومت کا استدلال ہے کہ وفاقی حکومت کے اس رویے کے سبب صوبے کے مالیاتی مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔
قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام کا مقصد انہیں قومی دھارے میں لانا اور ان کی مالی اور سماجی محرومیوں کا ازالہ کرنا تھا، مگر چھ سال گزرنے کے باوجود بھی ان علاقوں کو این ایف سی کے تحت مناسب مالی وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ضم شدہ علاقوں کے عوام 70 سالہ محرومیوں کا شکار ہیں، اور ان علاقوں کے لئے وفاقی وسائل کا فوری طور پر اجرا ضروری ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ ساتواں این ایف سی ایوارڈ آئین کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے اور اس کی توسیع سے پہلے خیبرپختونخوا کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اگر وفاقی حکومت ان مطالبات پر غور نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں صوبے اور وفاق کے درمیان اعتماد میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔۔
Leave a Reply