تازہ ترین / Latest
  Monday, December 23rd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

وہ گرین کوٹ

Articles , Snippets , / Friday, December 6th, 2024

یادیں، یادیں اور بس یادیں
کیوں میرا دامن چھوڑ نہیں دیتیں، کیوں مجھے کھل کے سانس لینے نہیں دیتیں، کیوں میرے سینے پہ رکھی ہوی کءی من وزنی برسوں پہلے رکھی ہوی پتھر کی سلیں کسی کھل جا سم سم جیسے طلسم سے سرک نہیں جاتیں، اور کیوں، کیوں، کیوں کی یہ جان لیوا تکرار میرے سر پہ ہتھوڑے کی مانند دھیرے دھیرے ضربیں لگاتی ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ میرا دماغ، میرا حرام مغز میری کھوپڑی کو چکنا چور کرتے ہوئے کسی پگھلے ہوے لاوے کی مانند میرے سر کی دونوں سا یڈوں سے بہتا ہوا میری کانوں تک آ جاتا ہے اور اس وقت میری بے بسی دیکھنے لایق ہوتی ہے جیسے کوی نومولود نجاست سے بھرے ہوئے غلیظ پیمپر کی غلاظت میں لتھڑا پڑا ہوا بے بس و لاچار اور اس کی ماں چاہ کر بھی اپنے لاڈلے کو اس نجاست سے نجات دلانے سے قاصر ہو جاے کبھی اچانک آ جانے والے مہمانوں کی آو بھگت میں بے تحاشا مصروفیت کی وجہ سے اور کبھی اپنی داڑھ میں اچانک اٹھ جانے والے درد کے علاج کے لیے ڈینٹسٹ کا وزٹ کرتے ہوے. اور نومولود مغموم آنکھوں اور اداس دل کے ساتھ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے ماں کو آوازیں بھی دیتا رہے اور اپنی ماں کی یادوں سے بھی حظ اٹھاتا رہے. یہ یادوں کی وہ خوبصورت منزل اور پیارا احساس ہے جسے ہم سب اپنی یادوں کی الماری میں ہمیشہ سب سے زیادہ سمبھال کے رکھتے ہیں. میری ہی ایک نظم میری یادوں کی الماری پہ غور فرمائیے گا
یادوں کی الماری
میری یادوں کی الماری
میرے خوابوں کی گلکاری
مجھے ہے پھولوں سی پیاری
دییے مدھم ہوں یا روشن
سدا رہتی ہے یہ روشن
میرے بچپن کی سب یادیں.
بہت بے تاب سی گھاتیں
سجی ہیں ساری خانوں میں
محبت کے ایوانوں میں
میری یادوں کی الماری
مجھے آواز دیتی
کبھی دھیمے سروں میں تو
کبھی یہ شور کرتی ہے
کبھی ہمت بڑھاتی ہے
میرے آنسو بھی چنتی ہے
کءی خوابوں کو بنتی ہے
میرے خوابوں کی الماری
میرے خوابوں کی گلکاری
تو یقین رکھیے اگر آپ کی آنکھیں، خواب بننے کے فن سے شناسا ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں اور اگر آپ خواب بن کے ان خوابوں کو حقیقت میں ڈھالنے کے فن سے سے آشنا ہیں تو آپ اس دنیا کے بادشاہ ہیںیادیں ہماری زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی اثاثہ تو ہوتی ہی ہیں، یادیں ہمیں اگلے راستوں پہ ڈال کے خود مست خرام ہو جٌاتی ہیں اور ساگر جہاں کے لیے تو یادیں ایسے ہی تھیں جیسے اس کی سانسوں کی روانی اور اس کی کل کہانی.
ابھی چار برس کا تھا کہ اماں زچگی کے دوران بنا کسی گل بات کے یہاں سے وہاں ہو گییں کیا پتا ساگر کو کہ ممتا کی شفقت سے محروم ہو گیا ہے بار بار ماں کے پاس کھڑے ہو کے اس نے ماں کو پکارا تھااس امید پہ کہ ماں ابھی اٹھ کے اس کے سارے دکھڑے سنے گی بھی اور ان مسائل کا کو ی نہ کوی مناسب حل بھی نکال ہی لے گی مگر یہ اس ننھےبالک کی ہٹ دھرمی تھی امید تھی ایک تمنا تھی. ہر نم آنکھ بھی ساگر کے غموں کے مداوے کے لیے ناکافی پڑ چکی تھی
لوٹ آتے نہیں جانے والے
یاد ماضی کو کریدا ہم نے
دل کو پلو میں سمیٹا ہم.
سچ تھا یا کڑوی حقیقت پونم
لوٹ آتے نہیں جانے والے
تو ساگر اپنی ماں کو صدایں دیتے دیتے چار سے تیس سال کا ہو گیا مگر یادوں کے تعفن سے اپنے آپ کو بچا نہ پایا
نیلی. آنکھوں اور شربتی رنگت والی ماں اس کی آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہی اور پھر جب اسے نیلی آنکھوں والی دل آویز سے پیار ہوا تو مانو یادوں کے خزینے میں ایک اور خزانے کا اضافہ ہوا. گلفام نے یادوں کی الماری میں ماں کی یادوں کے ساتھ ساتھ دلآ آویز کی یادوں کا بھی ایک خانہ خود ہی سے سیٹ کر لیا مسکراتی ہوی دل آویز، تقریر کرتی دلآویز، بھنگڑا ڈالتی ہوی دل آویز، مہندی لگواتی ہوی دلآویز. کوی ساگر کی نظر سے دیکھتا تو مانو یادوں کی الماری ایک چلتی پھرتی فلم تھی اور اس الماری کی سایڈ پہ لٹکتا ہوا ہرا کوٹ تو ایسا ہی چمکدار اور نیا نکور تھا جیسے دلآویز نے ابھی ابھی اسے لبرٹی سے خریدا ہو اور ایک ٹرای کے بعد اسے الماری میں احترام سے لٹکا دیا ہو اور خود گلفام کو یہ کہہ کے نکل
گءی ہو کہ بس گلفام میں بیالوجی کا وایوا دے کے یوں گءی اور یوں آی مگر سچ تو یہ ہے کہ دلآویز اس دن جب بیالوجی کا وایوا دینے گءی اور اس کا وایوا انٹرنل، اکسٹرنل دونوں کے پاس اتنا اچھا ہوا کہ وہ خوشی سے جھوم اٹھی مگر اس کی یہ خوشی اسے یوں راس نہ آی کہ وہ وآپسی پہ فٹ پاتھ پہ چڑھ آنے والی کسی امیر زادے کی خباثت کا بڑی بے رحمی، بڑی بے دردی سے یوں شکار ہوی کہ موقع پر ہی دم توڑ گءی ہاے میری سترہ سالہ دل آویز کو کتنی جلدی تھی میری یادوں کی الماری میں آ کے سجنے کی اور وہ سج گءی ایک میری ماں اور دوسری دل آویز دونوں ہی بڑی سمارٹ نکلیں اس کا وہ ہرا کوٹ برسوں گزرنے کے بعد بھی ویسا ہی چمکدار ہے اس میں سے روشنی کی شعاعیں بالکل اسی طرح میری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہیں جیسے اس کی نیلی کانچ جیسی آنکھوں سے نکلنے والی شعاعیں میں سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہوں اور رات آنکھوں میں کٹ جاتی ہے ایک معمولی گودام میں کلرک کی نوکری میری سانسوں روانی اور میری یادوں کی الماری پہ نوحے پڑھنے کے لیے کافی ہے لیکن کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ کاش یادوں کے بھی کفن ہوتے اور میں بھی یادوں کے اس حصار سے باہر نکل پاتا مگر یہ بھی صرف ایک خواہش ہے میرےجیسے کمزور شخص کی ایک کمزور سی خواہش
غزل
غم کی گھاتیں بھی دفن ہو جاتیں
وارداتیں بھی دفن جاتیں
کاش یادوں کے بھی کفن ہوتے
کاش یادیں بھی دفن ہو جاتیں
درد میں کروٹیں بدلتے ہوئے
غم کی راتیں بھی دفن ہو جاتیں
فرقہ واری کو موت آ جاتی
ساری ذاتیں بھی دفن ہو جاتیں
کچھ بھی پونم نہ یاد رہ پاتا
ساری باتیں ہی دفن ہو جاتیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International