Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ٹوپیاں پہنانا

Articles , Snippets , / Monday, May 19th, 2025

rki.news

مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر

عرف عام میں ٹوپیاں پہنانے سے مرادیہ لیا جا تا ہے کہ جب کوئی غریب آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر”پنگا“لے اور پھر اس پنگے کو”چنگا“کرنے کے لئے کسی قریبی دوست سے پکڑی ادھار رقم دیگر کئی احباب سے لے کر چکاتا پھرے،گویا کچھ بن نہ پائے تو دوسروں کو بے وقوف بنائے۔جبکہ عرف خاص یا معیشت کی زبان میں اسے گردشی قرضہ بھی کہہ سکتے ہیں۔گردشی قرضہ واحد قرض ہے جو ہر سمت گردش کرتے ہوئے بھی کہیں نظر نہیں آتابالکل ایسے ہی جیسے کہ ہمارے ایک وزیر اعظم جو گردشی قرض کی طرح گھومتے پھرتے ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں لیکن مصداق اس کے کہ صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں بس ایک گلاس توڑا بل بارہ آنے اور وہ بھی کسی اور کی جیب سے۔گردشی قرض اور ٹوپیاں پہنانے کی ایک بہترین مثال کچھ اس کہانی سے پیش کی جا سکتی ہے کیونکہ ہم اسی کو اچھا سمجھتے ہیں جو ”کہانی کار“ ہو۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک نو بیاہتا جوڑا چاند کو شہد (ہنی مون)لگانے سیاحتی مقام پہنچا تو سب سے پہلا مسئلہ درپیش ہوا کہ کوئی صاف ستھرا سا ہوٹل تلاش کیا جائے،تلاش بسیار کے بعد ایک مناسب ہوٹل کے استقبالیہ پر جا کر عرض کیا کہ سر ہمیں ایک صاف ستھرا روم آپ کے ہوٹل میں درکار ہے لیکن پہلے ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔استقبالیہ پر موجود مینجر نے کہا حضور ضرور مل جائے گا لیکن اس کے لئے آپ کو پانچ ہزار بعوض زر ضمانت جمع کروانے ہوں گے۔یونہی یہ جوڑا رقم ادا کر کے روم کی طرف لپکا،عین اسی وقت ہوٹل میں فش سپلائر آن ٹپکا کہ حضور اس مہینہ کا بل ابھی تک آپ نے ادا نہیں کیا اور بل بھی پانچ ہزار روپے ہی تھا۔اس مینجر نے وہی پانچ ہزار فش سپلائر کو ادا کردیے۔مچھلی فروش ابھی اپنی دکان پر پہنچا ہی تھا کہ بینک کا عملہ اپنی ماہانہ قسط کی وصولی کے لئے تشریف فرما ہوتا ہے اور وہی پانچ ہزار مچھلی والا بینک کے عملہ کو ادا کر کے رسید وصول کر لیتا ہے۔اب اتفاق دیکھئے کہ اسی بینک کی سالانہ میٹنگ کے لئے ہیڈ آفس سے کسی افسر کی آمد پر اسی ہوٹل میں ایک کمرہ بعوض پانچ ہزار بک کیا جاتا ہے۔اسی دوران میں نوبیاہتا جوڑا روم دیکھ کر واپس آتا ہے اور مینجر سے کہتا ہے کہ سر ہمیں روم پسند نہیں آیا لہذا ہمیں ہمارا زرضمانت واپس کردیا جائے ہم کسی اور ہوٹل جانا پسند کریں گے۔ہوٹل کا مینجر اس جوڑے کو ان کا پانچ ہزار واپس کردیتا ہے۔اب دیکھا جائے تو اس سارے عمل میں کسی نے بھی اپنی جیب سے کچھ ادا نہیں کیا اور اتنے سارے لوگوں نے استفادہ بھی کیا۔پاکستان اور نوے فیصد پاکستانی ایسے ہی کرتے ہیں۔گردش کو عام زبان میں چکر بھی کہتے ہیں،چکر دینے میں ہم پاکستانیوں کا کوئی جواب نہیں،چکر بیوی کو دینا ہو کہ دنیا کو ہم سے بڑا کوئی چکر باز نہیں،میرے محلہ میں تو ایک آدمی ایسا بھی ہے جوبیرون ملک عرصہ دس سا ل سے مقیم ہے اپنی بیوی کو ہر نو ماہ بعد ہی چکر دے دیتا ہے اس سال ماشا اللہ اسکا نواں بچہ اور دسواں چکر تھا۔
پاکستان میں تین طرح کے لوگ کامیاب ہیں،سفید ٹوپی والے(مولانا)،خاکی ٹوپی والے(وردی والے)اور ٹوپیاں پہنانے والے یعنی سیاستدان۔ہمارے ہاں مساجد میں باتھ روم کے بعد جو سب سے گندی چیز ملتی ہے وہ غریب کی طرح ایک کونے میں پڑی ہوئی سبز رنگ کی ٹوپی ہوتی ہے جسے نہ امام پہنتا ہے اور نہ ہی پکا نمازی،بس اسے کوئی اگر پہنتا ہے تووہ بھی کوئی غریب جو کبھی کبھار مسجد کا رخ کرتا ہے۔ہمیں تو عین شباب میں ایک بار مسجد جانے پر بڑے بزرگ نے یہ کہہ کر بھگا دیا کہ”سرکار ٹائم ویکھن آئے او“۔
سیانے کہتے ہیں کہ پہلے مذہب کردار میں ہوتا تھا اب ٹوپی اوردستار میں،جس کی ٹوپی ودستار اونچی اس کا اسلام بھی اونچا۔بندروں کے بعد سب سے زیادہ ٹوپی پہنانے کے ماہر ہم ہیں،ویسے بھی ہم پاکستانی دو کاموں میں شیر ہیں،الو بنانے اور ٹوپی پہنانے میں۔یہ بھی یاد رہے کہ اگر شیر ٹوپی پہننے سے انکار کرے تو اس کے پاس بھی دو ہی آپشنز رکھے جاتے ہیں ”جیل یاپلین“
بچپن میں ہم مسجد جاتے ہوئے اہتمام کے ساتھ سر پر ٹوپی پہنتے یا پھر شام کو والد صاحب کا حقہ تیار کرتے ہوئے حقہ کی ٹوپی کی تیاری کا اہتمام کرتے۔اگر ان دو کا موازنہ کیا جائے تو ”اہتمام ٹوپی حقہ“کی ہمیشہ ہی جیت ہوتی۔کیونکہ مسجد میں سر پر ٹوپی ٹھیک نہ ہوتی تو مولوی صاحب سے ڈانٹ پڑتی اور حقہ کی ٹوپی ”با اہتمام“نہ ہوتی تو والد صاحب سے مار پڑتی۔اب ظاہر ہے ڈانٹ تو برداشت کی جا سکتی ہے مار کہاں۔مگر وہ ڈانٹ انفرادی و ذاتی نوعیت کی ہوتی تھی،موجودہ سیاسی حالات میں ٹوپی کا تقدس والدین سے بڑھ کر ہے۔اور اس کی گستاخی یا تقدس کی پامالی گناہ کبیرہ سے کسی طور کم نہیں۔ٹوپی والے آجکل قوم کے ہوش و حواس پر اس طرح چھائے ہوئے ہیں کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مسجد کے ہال میں کھڑے میں نے تبلیغی جماعت کی آمد پر فقرہ چست کیا کہ یہ ٹوپی والے ادھر کہاں آرہے ہیں واپس مڑ کر دیکھا توہال میں موجود افراد ایسے غائب پائے گئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔شائد لوگ سفید کی بجائے خاکی ٹوپی والے سمجھ بیٹھے تھے۔
تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ ازمنہ قدیم میں جب کبھی کسی ریاست کا بادشاہ دربار میں کسی صاحب علم یا سائنسی ایجادات سے متاثر ہوتا تو اہل ہنروعلم کی دستار بندی کی جاتی جو اس بات کی نشانی ونشاندہی ہوتی کہ آج کے بعد ریاست کے ہر باشندہ پر ان کی تکریم فرض ہے۔یہ بات بھی تاریخ میں لکھی جائے گی کہ جب سے دستار بندی کے عمل سے ہم آزاد ہوئے ہیں ”ٹوپیاں پہنانے“میں کئی گنا ماہر ہو گئے ہیں۔
پاکستان میں اگر کسی ٹوپی کی توقیر وتکریم ہے تو وہ جناح کیپ کی ہے بشرطیکہ وہ ”نوٹ“پر ہو۔وگرنہ یہ بات نوٹ فرمالیں کہ جناح اگر آج زندہ ہوتے تو بھی ان کی اسی کیپ کی عزت ہوتی جو”نوٹ“پر ہوتی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International