rki.news
( کورس کے شرکاء: اعلیٰ تعلیم یافتہ، عام تاثر)(وقت کی پابندی: چند دلچسپ واقعات)}
1973 میں ہم نے بحیثیت ایجوکیشن انسٹرکٹر پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کرلی۔ ٹرینگ کے لیے کوہاٹ پہنچنا تھا۔ جس دن رپورٹ کی سب سے پہلے حجام کے سپرد کردیے گئے ۔ ہم سب کو اپنے خوبصورت بالوں سے محروم ہونا پڑا۔ کچھ لڑکے تو باقاعدہ رونے لگے۔ ایسا زبردست Hair Cut ہوا لگتا تھا کہ چڑیا کے بچے تازہ تازہ انڈوں سے نکلے ہیں۔ اس کے بعد ہفتے کے ہفتے حجامت کروانا پڑتی تھی خواہ بال ہوں یا نہ ہوں۔ ایک آفیسر کمانڈنگ کا سر بالوں سے محروم تھا لیکن سوٹڈ بوٹڈ باربر ، بریف کیس تھامے ہر ہفتے ہیئر کٹ کے لیے صاحب کے بنگلے پر جاتا تھا۔ کچھ شرارتی جونیر آفیسرز کا کہنا تھا کہ باربر magnifying glass لے کر جاتا ہے۔
ہیر کٹ کے بعد تعارف کا مرحلہ شروع ہوا۔ ڈرل انسٹرکٹر نے باقی لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی قطار میں کھڑا کردیا۔ ہماری حیرانی کی انتہا نہ رہی زیادہ تر ہمارے کورس کے ساتھی MA, MSc تھے۔
(Eng, Maths, Phys, Chem, IR)
جیسے اہم مضامین کے حامل اتنی بڑی تعداد میں یہ بے روزگار کسی کالج یونیورسٹی کی بجائے 350 روپیے ماہوار پر فوج میں نان کمیشنڈ پوسٹ کہ اہل ثابت ہوئے۔ یہ سب 1971 کے قومی سانحہ کا شاخسانہ تھا۔ لیکن اللہ بڑا کارساز ہے۔ چند برسوں ہی میں ہم سب ائرفورس ہی میں ڈاریکٹ کمیشنڈ آفیسر (فلائنگ آفیسر/فلائٹ لیفٹیننٹ)کے عہدے کے لیے منتخب ہوگئے۔
ایک ایجوکیشن انسٹرکٹر کی ٹرینگ کے دوران تنخواہ 350 روپئے ماہوار تھی، کھانا پینا، رہائش، سرکاری تھی۔ (ہم نے اس وقت اپنی تنخواہ میں سے دوسو روپے والدہ کو بھیجنا شروع کردیا، ان کے منع کرنے کے باوجود، ہمیں اپنی پہلی کمائی والدہ کی نذر کرتے جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر تھی۔ ان کی زندگی تک اپنی تنخواہ کا ایک حصہ ان کے قدموں میں رکھتے رہے یہ سلسلہ ان کی زندگی تک رہا۔ شادی کے بعد بھی، بیگم کو علم تھا کہ والدہ کو اس کی ضرورت نہیں لیکن اس میں ہماری خوشی ہے۔ بیگم ہماری خوشی میں خوش تھیں)۔
ٹرینگ کے ابتدائی دنوں میں چھری کانٹے کا استعمال ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ایک آفیسر سکھانے پر معمور تھے۔ ویسے ویٹرز بہت ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ کھانے میں ہاتھوں کی انگلیوں کا استعمال کرنے والے ہم لوگ اپنے گھروں میں کہاں چھری کانٹے سے کھاتے پیتے تھے۔ ہم نے اس کا حل یہ نکالا کہ صبح سویرے ہی نہادھو کر میس پہنچ جاتے۔ (صبح اٹھنے کی عادت یہاں بہت کام آئی)۔ ویٹر محمد علی بھی بہت کام آیا۔ اتنے سویرے ڈائنگ ہال میں ہم اکیلے ہوتے تھے سو بغیر جھجک، شرم کے چھری کانٹے کا استعمال کرنے لگے۔ کس ہاتھ میں کانٹا اور کس میں چھری۔ ویٹر کو بلانا ہو تو آواز یا ہاتھ کا اشارہ نہیں کرنا۔ کرسی پر سیدھے ہوکر انتظار کریں ویٹر فورا” پہنچ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ محمد علی نے نہایت ادب احترام سے ہمیں یہ “آداب” سکھادیے۔
ایک روز ڈنر میں Roast Chicken Legs تھے ۔ کھانا بھی چھری کانٹے سے تھا۔ سب ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے۔ ہمارے انسٹرکٹر آفیسر بھی ساتھ بیٹھے تھا۔ ایک نے ہمت کی، چکن پیس کو کانٹے سے دباکر چھری چلانا ہی چاہی تھی کہ “چکن کی ٹانگ” اچھل کر سامنے بیٹھے انسٹرکٹر کی ناک پر لگی ساتھ ہی لائٹ چند منٹ کے لیےآف ہوگئی۔ دوبارہ روشنی ہوتے ہی عجب مضحکہ خیز منظر سامنے تھا۔ سب کے چھری کانٹے پلیٹ میں، چکن ہاتھوں دانتوں کی گرفت میں اور پھٹی ہوئی آنکھیں، غصے سے گھورتے انسٹرکٹر کی طرف۔ لگتا تھا کہ لائٹ بھی انہی کی ہدایت پر بند کی گئی تھی۔ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ کر وہ ڈائنگ ہال سے باہر یہ کہتے ہوئے چلے گئے۔ All of you assemble out side, after the dinner
آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ اس رات ہم بارہ بجے کے بعد سونے کے لیے اپنے کمروں میں پہنچے۔ دوڑ دوڑ کے چکن ہضم ہوچکی تھی۔
ویک اینڈ پر پیشاور، پنڈی کے لڑکے اپنے گھر چلے جاتے۔ اتوار کو رات گئے ہشاش بشاش واپسی ہوتی۔ ہم دور دراز کے رہنے والے، کوہاٹ کے بازار کا چکر لگا کر میس واپس آجاتے۔ ایک ویک اینڈ ہر ہمارے ایک ساتھی رات گئے تک پنڈی سے نہیں پہنچے۔ دوسرے دن پہلا پیریڈ پریڈ کا ہوتا تھا۔ ہیر کٹ کی سخت چیکنگ ہوتی نہ کروانے پر ٹھیک ٹھاک حجامت ۔ ڈرل انسٹرکٹر کے سینے میں شاید دل نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پتہ نہیں انکے اپنے لڑکے بالے تھے بھی یا نہیں۔
قصہ مختصر ہمارے وہ کورس میٹ ویک اینڈ گزار کر صبح سویرے پہنچے۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ہیئر کٹ کا خوف۔ موصوف تھوڑی دیر بعد واش روم سے برآمد ہوئے تو ہم سب کا ہنسی کے مارے برا حال۔ سیفٹی ریزر سے حضرت نے کان کے ایک سرے سے دوسرے کان تک بال اڑا لیے تھے۔ لگتا تھا کہ سر پر پیالہ رکھ کر حجامت کروائی گئی ہے۔ اسی شان سے یونیفارم پہن کر پریڈ گراؤنڈ پہنچے ویسے ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح سے کہیں چھپ جائیں لیکن ہماری ذمہ داری تھی سب کو لے کر جانے آنے کی ۔ ہم نے چونکہ جمناسٹک کا ڈپلوما کیا ہوا تھا، پی ٹی پریڈ میں بہتر ہونے کی وجہ سے Senior man (مانیٹر سمجھ لیجیے) بھی تھے۔ اپنے ٹریینی دستے کو مارچ کرواتے پریڈ گراؤنڈ لے آئے۔ جلاد صفت ڈرل انسٹرکٹر ایک سرے سے انسپکشن شروع کرتے ہوئے موصوف تک پہنچے۔ پہلے سامنے سے ان کا جائزہ لیا، پھر دور ہٹ کر، پھر گھوم پھر کر چاروں طرف سے دو چکر لگائے۔ ہم لوگ بمشکل ہنسی ضبط کیے ہوئے تھے۔ انسٹرکٹر نے مکمل معائنہ کرنے کے بعد پوچھا جناب کے سر پر یہ کس ماہر حجام نے اتنے خوبصورت دستخط فرمائے ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم سب کے ہونٹوں سے ہنسی کا فوارا چھوٹ پڑا۔ خاموش۔۔۔۔ ڈرل انسٹرکٹر کے چنگھاڑتے ہی ہنسی کو بریک لگ گئے۔ اس کے بعد موصوف کی پیٹھ پر “پٹھو” اور ہم سب ان کے ساتھ ہریڈ گراؤنڈ کے چکر لگاتے رہے۔ (جاری ہے)
(فیروز ناطق خسروؔ)
Leave a Reply