(تحریر احسن انصاری)
17 ستمبر 2025 کو پاکستان اور سعودی عرب نے ریاض میں ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی موجودگی میں ہونے والا یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ معاہدے کی بنیادی شق یہ ہے کہ کسی بھی ملک پر ہونے والا حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر اس کا جواب دیں گے۔ اس معاہدے کو “اسٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ” کا نام دیا گیا ہے جو طویل عرصے سے جاری دفاعی تعاون کو باضابطہ اور ادارہ کی شکل فراہم کرتا رہا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی تاریخ ہمیشہ قریبی اور اعتماد پر مبنی رہی ہے۔ پاکستانی فوجی افسران اور ماہرین کئی دہائیوں سے سعودی عرب کی مسلح افواج کی تربیت اور مشاورت میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان نے سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی ترجیحات میں رکھا، بالخصوص مقدس مقامات کے تحفظ کے حوالے سے۔ نئے معاہدے کے مطابق پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ کا باضابطہ شراکت دار ہو گا، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید گہرائی اور روحانیت کا پہلو شامل ہو گیا ہے۔
اس معاہدے کے پس منظر میں مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کی طرف سے خلیجی ممالک میں حملے، ایران کے ایٹمی پروگرام کی پیش رفت، یمن اور شام کی شورشیں، اور خطے میں طاقت کے توازن کی تبدیلیاں ایسی وجوہات ہیں جنہوں نے سعودی عرب اور پاکستان کو اپنے دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر مجبور کیا۔ سعودی عرب روایتی طور پر امریکہ کو اپنا سب سے بڑا سکیورٹی ضامن سمجھتا رہا ہے، لیکن بدلتی ہوئی عالمی سیاست نے اسے متبادل اور خطے کے اندرونی اتحادوں کی تلاش پر آمادہ کیا۔ پاکستان اس اعتبار سے ایک قدرتی انتخاب تھا کیونکہ وہ ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے اور خطے میں اپنی عسکری مہارت اور اثرورسوخ رکھتا ہے۔
معاہدے کی شقوں کے مطابق دونوں ممالک ہر طرح کے دفاعی وسائل کو بروئے کار لانے کے لئے پرعزم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف روایتی فوجی تعاون ہی نہیں بلکہ خفیہ معلومات کے تبادلے، مشترکہ مشقوں اور ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی چھتری تک کے امکانات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کا دفاع کریں گے، یعنی اگر کسی پر حملہ ہوتا ہے تو دوسرا ملک اس کا جواب اپنی ذمہ داری سمجھ کر دے گا۔ اگرچہ معاہدے میں ایٹمی ہتھیاروں کا براہ راست ذکر نہیں کیا گیا، لیکن عالمی میڈیا اور ماہرین کے مطابق اس میں “نیوکلئیر ڈیٹرنس” کا پہلو خاموشی کے ساتھ شامل ہے۔ یہی پہلو اس معاہدے کو عالمی سطح پر خاص اہمیت دیتا ہے۔
یہ معاہدہ خطے میں نئی بحثوں کو جنم دے رہا ہے۔ بھارت نے فوری طور پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کے اثرات کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے لئے بھی یہ پیش رفت تشویشناک ہے کیونکہ یہ براہ راست ان کے تزویراتی مفادات کو متاثر کر سکتی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھی محتاط نظر آ رہے ہیں کیونکہ یہ معاہدہ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تزویراتی خود مختاری کے رجحان کی علامت ہے۔ اس معاہدے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ خلیجی ممالک اب صرف مغربی طاقتوں پر انحصار نہیں کریں گے بلکہ خطے کے اندر بھی دفاعی ضمانتوں کی تلاش کریں گے۔
پاکستان کے لئے یہ معاہدہ ایک بڑی سفارتی اور دفاعی کامیابی ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ اگر سعودی عرب پر حملہ ہوتا ہے تو پاکستان کو اپنی فوجی قوت استعمال کرنے کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ یہ صورتحال پاکستان کی معیشت، عسکری صلاحیت اور داخلی سیاست پر گہرے اثرات ڈال سکتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرقی سرحد پر تناؤ کا سامنا کر رہا ہے، ایسے میں خلیجی خطے میں بھی ذمہ داری لینا ایک بڑا امتحان ہوگا۔ تاہم اس کے بدلے میں پاکستان کو سعودی عرب کی سرمایہ کاری، توانائی تعاون اور سفارتی حمایت کی صورت میں بڑے فوائد ملنے کا امکان ہے۔
سعودی عرب کے لئے بھی یہ معاہدہ نہایت اہم ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی بحران نے جنم لیا تو سعودی عرب نے امریکہ یا مغربی اتحادیوں کی طرف رجوع کیا۔ لیکن اب وہ ایک ایٹمی ملک کو اپنا دفاعی ضامن بنا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لئے ایک پیغام بھی جاتا ہے کہ سعودی عرب اپنی سلامتی کے لئے نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی قیادت کو بھارت جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم رکھنا ہوگا تاکہ معاہدے کے باعث تجارتی یا سفارتی تعلقات متاثر نہ ہوں۔
یہ معاہدہ بعض ماہرین کے نزدیک نیٹو کے آرٹیکل فائیو جیسا ہے جس کے تحت کسی ایک رکن ملک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے لئے یہ معاہدہ اسی اصول پر مبنی ہے۔ تاہم عملی سطح پر اس کے نفاذ کے لئے دونوں ممالک کو مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ مشترکہ فوجی مشقیں، کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نظام میں ہم آہنگی، اور دفاعی انفراسٹرکچر کی ترقی لازمی ہوگی تاکہ معاہدے کی روح کے مطابق فوری اور مؤثر ردعمل ممکن بنایا جا سکے۔
نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ ایک بڑی جغرافیائی و سیاسی پیش رفت ہے۔ اس نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور خطے میں طاقت کے توازن کو نئے رخ پر ڈالا ہے۔ یہ معاہدہ دشمنوں کے لئے ایک مضبوط پیغام ہے کہ اب کسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب اجتماعی طور پر دیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ کا براہِ راست شریک کار ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاع کے ضامن ہیں۔ تاہم اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ممالک اس کے عملی تقاضوں کو کس حد تک پورا کرتے ہیں اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں کس طرح حکمت عملی اپناتے ہیں۔
Leave a Reply