rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
پاکستان میں بہت زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں اور مزید بارشوں کی پیش گوئیاں بھی ہو چکی ہیں۔مون سون سے قبل شروع ہونے والی بارشوں نے کافی نقصان پہنچا دیا ہے۔اب مون سون کا موسم شروع ہو چکا ہےاوربارشوں نےبہت زیادہ تباہی مچا دی ہے۔پورے پاکستان میں بارشیں ہو رہی ہیں لیکن کچھ علاقوں میں بارشیں کافی نقصان پہنچا چکی ہیں اور مزید نقصان پہنچنے کا بہت بڑا امکان ہے۔پنجاب سمیت پورا پاکستان بارشوں کی وجہ سےمشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔راولپنڈی،جہلم اور چکوال میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں لوگ سیلابی پانی میں پھنس چکے ہیں۔اسی طرح میانوالی میں بھی بارشی پانی بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔میانوالی اورعیسی خیل کے کئی علاقے زیر آب آچکے ہیں۔درجنوں گھر تباہ ہو گئے ہیں اور کھڑی فصلیں بھی برباد ہو چکی ہیں۔آرمی اور انتظامیہ مل کرعوام کو ریسکیو کرنے کے لیےکام کر رہے ہیں۔راولپنڈی سمیت کئی علاقوں کے گھروں میں بارشی پانی داخل ہو چکا ہے۔کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں نیز مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق مون سون بارشوں کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 113 ہو گئی ہےاور 393 شہری زخمی ہو چکے ہیں۔بہت سے گھر مکمل طور پر تباہ ہوئےہیں اوربے شمارگھروں کو تھوڑابہت نقصان پہنچا ہے۔بارشوں کی وجہ سے جانور بھی ہلاک ہوئےہیں۔سندھ کے شہر حیدرآباد میں بھی بارشیں بہت نقصان پہنچا چکی ہیں۔حیدرآبادمیں بوسیدہ چھتیں بھی گری ہیں اور درخت بھی گرے ہیں،جس کی وجہ سےکافی نقصان ہوا ہے۔حیدرآباد میں ایک شخص کے ہلاک اورپانچ افراد کےزخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔سیلابی ریلوں نےسڑکوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سےآمدورفت بھی متاثر ہو چکی ہے۔کئی جگہوں پرآرمی کے تعاون سے ہیلی کاپٹرکے ذریعےبہت سےافراد کو بچایا گیا ہے۔لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی ہے۔
سیلابوں کی وجہ سےدریاؤں کے کناروں پر رہنے والے افراد بھی مشکل میں پھنس چکے ہیں۔وہ افراد عمر بھر کی جمع پونجی سے بھی محروم ہو رہے ہیں اور ان کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ چکی ہیں۔پورے ملک میں مون سون کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔سیلاب،لینڈ سلائیڈنگ اوربنیادی ڈھانچے کو تیز ہواؤں کے باعث نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔پاکستان میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے،پاکستانی شہری زیادہ پختہ مکانات نہیں بنا سکتے۔غربت کی وجہ سےآبادی کا بہت بڑا حصہ جھونپڑی نما مکانوں میں رہائش رکھنے پر مجبور ہے۔معمولی سی بارش ان مکانات کو شدید متاثر کر دیتی ہے۔اب اگر بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں توبہت بڑی تباہی پھیلنے کاخدشہ موجود ہے۔پاکستان میں نکاسی آب کا مسئلہ بھی بہت بڑھا ہوا ہےاور اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔بارشی پانی اگر ایک ترتیب سےآبادی والی جگہوں سےنکالا جائے تونقصان سےبچاجاسکتاہے۔موسمی تبدیلیاں پوری دنیا کو متاثر کر رہی ہیں لیکن پاکستان بہت زیادہ متاثرین میں شامل ہے۔پاکستان میں معمولی سی بارش بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا دیتی ہےاور اس کی ذمہ داری حکومت پرآتی ہے۔اگر بارشی پانی کے لیےصحیح راستہ بنا دیا جائے توپانی آبادیوں یا زرعی زمینوں کونقصان پہنچائے بغیر منزل تک پہنچ سکتا ہے۔اس کے لیےکام کرنے کی ضرورت ہےاور کام بھی فوری طور پر کیا جائے۔
پاکستان میں سیلاب کوئی پہلی دفعہ نہیں آرہا ہے بلکہ پہلے بھی کئی دفعہ آتے رہے ہیں۔صرف 2022 میں سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب کر دیا تھا اور اس سیلاب میں 1700 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ہلاکتوں کے علاوہ زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی اور مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہوا تھا۔زیادہ بارشیں یا سیلابوں کاآنا کوئی انہونی نہیں اور اب تو کافی عرصہ پہلے علم ہو جاتا ہے کہ فلاں مہینے میں بارشیں ہوں گی اور یہ صورتحال ہوگی۔اب اگر صورتحال کو پہلے کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی جائےتو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔فلاحی ریاستیں پہلےسےہی ایسے اقدامات اٹھا لیتی ہیں جن سے شہریوں کا کم نقصان ہوتا ہے۔اب سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی سے ایسا انتظام کیوں نہیں کیاجاتا جس سے کم نقصان ہو؟حکومت کے علاوہ عوام کی اپنی ذمہ داری بھی ہے کہ تعمیرات کرتے وقت مستقبل کے مسائل کا بھی خیال رکھا جائے۔مکانات تعمیر کرنے شروع کر دیے جاتے ہیں،لیکن نکاسی آب کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا اوریوں یہ مسئلہ مستقبل میں بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔نالوں اورآبی گزرگاہوں پر تعمیرات کر دی جاتی ہیں،اس طرح کا عمل پانی کو روکنے کا سبب بن جاتا ہے۔اگر کہیں گھر تعمیر کیا جائے تو اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ نکاسی آب کا مسئلہ مستقبل میں پیدا نہ ہو۔بہت سی جگہوں پر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیےسیلابی پانی کا رخ زرعی زمینوں کی طرف کر دیا جاتا ہےاوراس طرح سیلابی پانی آبادیوں سمیت زرعی زمینوں کو بھی نقصان پہنچا دیتا ہے۔زرعی زمینوں کی طرف پانی کا رخ کرنا خطرناک ثابت ہوتا ہے،اگر پانی کا رخ تبدیل کرنا ضروری ہو تو ڈیزائن اس طرح بنایا جائے کہ پانی صرف فائدہ پہنچائے۔
وضاحت کی جا چکی ہے کہ مزید بارشیں آئیں گی۔جو علاقے متاثر ہونے والے ہیں ان علاقوں کےمکینوں کودوسرے علاقوں کی طرف منتقل کر دیا جائے۔اگر دوسرے علاقوں کی طرف منتقل کرنا مشکل ہوتو ان کو ریسکیو کرنے کے لیےپورا انتظام ہونا چاہیے۔جو افراد زخمی ہو چکے ہیں،ان کے علاج معالجے کا بندوبست بھی فوری طور پر ہونا چاہیے۔نالوں یاآبی گزرگاہوں پرتجاوزات کو ہٹانا ضروری ہے تاکہ پانی آسانی سےگزر سکے۔جن افراد کے مکانات تباہ ہوئے ہیں یا زرعی زمینوں کو نقصان پہنچاہے،ان کو فوری طور پر امدادی جائے۔خوراک کے علاوہ ادویات بھی متاثرین تک پہنچائی جائیں۔حکومت کوشش کرے کہ جتنی ہلاکتیں ہو چکی ہیں مزید نہ ہوں۔پاکستان میں کسی فصل کا کاشت کرنا بہت ہی مشکل بن چکا ہے،کیونکہ مہنگے بیج اور دیگر لوازمات خریدنا انتہائی مشکل ہے۔اب سیلابوں نے بہت سے کسانوں کی فصلات تباہ کر دی ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ سنبھل سکیں۔عوام خود بھی کوشش کرےکہ دریاؤں کےنزدیک رہائش اختیار نہ کریں۔جن علاقوں میں ہیلی کاپٹر سروس کی ضرورت ہےتو فوری طور پر ہیلی کاپٹر سروس کےعلاوہ دیگر سہولیات بھی وہاں مہیا کر دی جائیں تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیےعوامی تعاون بھی ضروری ہوتا ہے،لہذا عوام انتظامیہ سے تعاون کرے تاکہ مسائل پر قابو پایا جا سکے۔
Leave a Reply