rki.news
✍ تحریر: طارق محمود
ایکسپرٹ میرج بیورو
03132009181
قوم کا سب سے بڑا بحران نادانی ہے، جو اسے اپنے زخموں کا احساس نہیں ہونے دیتی۔
ہماری قوم آج بھی آزادی کے خواب میں اسیر ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم سیاسی طور پر آزاد اور فکری طور پر غلام ہیں۔
یہ غلامی اب زنجیروں سے نہیں، نظریات، نظام اور سوچ کی قید سے ظاہر ہوتی ہے۔
ہم نے نادانی کو دانش سمجھ لیا ہے، اور اپنے زوال کو تقدیر کا حصہ مان لیا ہے۔
پاکستان آج جس بحران سے گزر رہا ہے، وہ معیشت یا سیاست کا تو ھے ھی—لیکن فکر اور شعور کے زوال کا بحران ہے اس سے برے حالات ہیں۔
یہ وہ زوال ہے جو قوم کو بتدریج اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی غلامی کو محسوس کرنا بھی چھوڑ دیتی ہے۔
> “بدترین برائی نادانی ہے، کیونکہ یہ ہمیں اپنے نقصانات کا علم نہیں ہونے دیتی۔” — سقراط
یہ جملہ محض فلسفیانہ قول نہیں بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جو آج کے معاشرے کا چہرہ دکھاتا ہے۔
سقراط نے جس نادانی کو “بدترین برائی” کہا، وہی آج ہماری قوم کے زوال، انتشار اور غلامی کی اصل جڑ ہے۔
ہم آزادی کے نعرے ضرور لگاتے ہیں، مگر ہماری فکری، سیاسی اور ادارہ جاتی غلامی بدستور قائم ہے۔
🕯 نادانی: زوال کی جڑ
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
> “إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ”
(الانفال: 22)
“اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ ہیں جو بہرے، گونگے ہیں اور عقل استعمال نہیں کرتے۔”
یہ آیت صرف افراد کے لیے نہیں بلکہ پوری قوموں کے لیے تنبیہ ہے۔
جب قومیں سوچنا چھوڑ دیتی ہیں، سچ سے منہ موڑ لیتی ہیں، اور اپنی عقل دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتی ہیں — تو وہ زوال کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہیں۔
🇵🇰 پاکستان میں غلامی کا تسلسل
🔹 1۔ سیاسی غلامی
قیامِ پاکستان کے بعد ہم نے انگریز سے آزادی تو حاصل کی، مگر ان کا نظام اپنی جڑوں سے نہیں نکالا۔
وہی نوآبادیاتی ڈھانچہ، وہی طرزِ حکمرانی، اور وہی عدالتی و انتظامی ساخت برقرار رہی۔
نظام بدلا نہیں، صرف چہرے بدلے۔
آج بھی ہماری معیشت عالمی مالیاتی اداروں کی محتاج ہے، اور ہماری خارجہ پالیسی اکثر بیرونی دباؤ کے تابع۔
یہی سیاسی غلامی کی جدید شکل ہے — آزادی کے پردے میں انحصار۔
🔹 2۔ فکری غلامی
فکری غلامی سب سے خطرناک ہے، کیونکہ یہ نظر نہیں آتی مگر قوم کے ضمیر کو مفلوج کر دیتی ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام، میڈیا، اور فیشن مغربی سانچوں میں ڈھل چکے ہیں۔
ہم نے اپنی تہذیب کو کم تر، اور دوسروں کی تقلید کو ترقی سمجھ لیا ہے۔
> “وَلا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ”
(الاسراء: 36)
“جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے نہ چلو۔”
تحقیق و تدبر کے بجائے اندھی تقلید نے ہمیں فکری غلام بنا دیا۔
یہی نادانی ہماری شناخت کو مٹا رہی ہے — ہم اپنی تاریخ سے کٹتے جا رہے ہیں اور دوسروں کے نظریات میں کھو گئے ہیں۔
🔹 3۔ ادارہ جاتی غلامی
ریاست کے ادارے، جو عوامی خدمت کے ضامن ہونے چاہئیں، طاقت کے مراکز بن چکے ہیں۔
قانون کمزور کے لیے سزا اور طاقتور کے لیے تحفظ بن گیا ہے۔
انصاف کی جگہ مفاد نے لے لی ہے۔
> “إِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ”
(الرعد: 11)
“اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔”
ہم ادارے بدلنے کے بجائے چہروں کی تبدیلی کو اصلاح سمجھ بیٹھے ہیں، اور یہی نادانی غلامی کے تسلسل کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
🌙 نبی ﷺ کا پیغامِ آزادی
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
> “جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر نہ روک سکے تو زبان سے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔”
(صحیح مسلم)
یہ حدیث ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل آزادی ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔
جو قوم برائی کے خلاف خاموش ہو جائے، وہ دراصل غلامی پر راضی ہو جاتی ہے۔
📚 علم نہیں، شعور درکار ہے
قوموں کی ترقی کا راز صرف تعلیمی اداروں یا نصابی کتابوں میں نہیں چھپا ہوتا، بلکہ اُن ذہنوں میں پوشیدہ ہوتا ہے جو سوچنے، سمجھنے اور نظام بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
کتابیں علم فراہم کرتی ہیں، مگر شعور اُس علم کو عمل میں ڈھالتا ہے۔
وہ قومیں جو فکر و کردار کی بلندی پیدا کر لیتی ہیں، وہی تاریخ کا دھارا موڑ دیتی ہیں۔
درحقیقت،
> قوموں کی تعمیر محض کتابوں سے نہیں بلکہ شعورِ فکر، بصیرتِ سیاست اور جرأتِ کردار سے ہوتی ہے۔
یہی وہ امتیں ہیں جو غلامی کی زنجیریں توڑ کر خود قیادت سنبھالتی ہیں، اور اپنی تقدیر کا فیصلہ خود لکھتی ہیں۔
قوموں کی زندگی کا فیصلہ ان کے وسائل سے نہیں، ان کے ضمیر کی بیداری سے ہوتا ہے۔
جب دلوں میں حرارتِ ایمان، ذہنوں میں آزادیٔ فکر، اور کردار میں استقامت پیدا ہو جائے، تو غلامی کی زنجیریں موم کی طرح پگھل جاتی ہیں۔
اقبالؒ نے کہا تھا:
> “افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر،
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ!”
آج پاکستان اسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے کتابوں سے نہیں، زندہ ضمیروں اور بیدار ذہنوں کی ضرورت ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب قوم کو نعرے نہیں، نظریہ، ایمان اور بصیرت درکار ہے۔
اگر ہم نے اپنے فکر و کردار کو جگا لیا تو زوال ہمارا مقدر نہیں رہے گا۔
کیونکہ قومیں ماضی کے زخموں سے نہیں مرتی — وہ صرف اُس وقت مرتی ہیں جب سوچنا چھوڑ دیتی ہیں۔
Leave a Reply