rki.news
افسانہ . ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
ایک مفلوک الحال، بوسیدہ، گھسے ہوے لباس میں ملبوس شخص، جس کی خمیدہ کمر، رو رو کے بینای کھوتی ہوی بجھی بجھی سی آنکھیں، جیسے کسی آخری شب کا تھکا ہارا، بجھتا ہوا دیا، جس میں ہر شے ہی دم آخیر ہو، نہ ہی تیل، نہ ہی باتی اور نہ ہی لو. اس کے گھسے ہوئے گہرے آسمانے لبادے میں جا بجا چھید تھے، جو اسے موسموں کی گرمی سردی سے بچانے سے قاصر تھے، ہاے یہ مفلوک الحالی بھی ناں، کتنا بڑا روگ ہوتی ہے کسقدر عذاب ہوتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عذاب الہی ہوتی ہے، جب خدا کسی سے شدید ناراض ہو جاتا ہے یا کسی کو کسی بڑی آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو اسے مفلسی کے جال میں لے جا کر بے یارو مددگار پھینک دیتا ہے،اور پھر اس کی بے بسی کا نظارہ کرنے والوں میں عرش والوں کے ساتھ ساتھ فرش والے بھی شامل ہو جاتے ہیں بوڑھے کے کپڑے ضرور بوسیدہ تھے ننگے پیروں میں تیل، کیچڑ اور دیگر آلایشوں کے ساتھ ساتھ رستے ہوے چھالے بھی بہت زیادہ تھے.اف یہ چھالے بھی ناں بھلے ہاتھوں پہ ہوں یا پیروں پہ ہوتے بہت ظالم ہیں، اس بات کا پکا ثبوت ہوتے ہیں کہ محنت کرنے والے نے محنت کرنے کی حد ہی کر دی ہو گی. خیر چند روزہ زندگی میں دو پل سکون کے گزارنے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں یہ کبھی ان سے پوچھیے گا جو ساری زندگی، انتہاے جدوجہد کے باوجود بھی محروم تمنا رہ جاتے ہیں. وہ بوڑھا چلنے سے قاصر ہونے کے باوجود چل رہا تھا، اللہ جانے انسان کی روح کو سکون کیوں نہیں، کون سی دھن ہے جو ہم انسانوں کو ہمہ وقت بے چین رکھتی ہے؟؟ کون سی خواہش ہے جسے پورا کرنے کے لیے ہم بنا ٹانگوں کے سہاروں کے ساتھ بھی لنگڑاتے پھرتے ہیں؟؟؟ کچھ تو ہے جس کی تلاش میں ہم خود بھی با الآ خر ایک یاد ہی بن جاتے ہیں، نشانہ عبرت ہی بن جاتے ہیں، مگر تلاش کا سفر جاری رہتا ہے.
نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے ریے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
مجھے وہ بوڑھی عورت یاد آگءی جس کی عمر اس کے چہرے پہ کنندہ جھریوں سے بخوبی لگای جا سکتی تھی، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی عمر کم اور غم زیادہ ہوں جنہوں نے مکڑی کے جالوں کی طرح اس کے چہرے کو جھریوں کے جالے میں بن چھوڑا ہو ہاے یہ غم، دکھ اور روگ بھی کسی انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتے، اور انسان اپنی اصل عمر سے کہیں بڑا اور سن رسیدہ نظر آنے لگتا ہے تو اس جھریوں بھرے چہرے والی مای کے اکلوتے بیٹے کو گاوں کے چوہدری صاحب نے سر عام آٹھ فاییر کر کے موت کی نیند سلا دیا تھا، قصور اس یتیم کا اتنا تھا کہ اس نے اپنے کھیتوں کے لیے اپنی باری کا پانی مانگا تھا.
ہاے مولا تیری رحمت باراں
ہر کھیت پہ ہی برس جاتی ہے
تو مولا کی کس کس رحمت کو جھٹلایں گے ہم ناشکرے.
خیر بیوہ، دکھیا، کمزور اور بے آسرا بڑھیا اور تو کچھ نہ کر پای، مگر روزانہ صبح و شام چوہدریوں کی حویلی پہ جا کے ان ظالموں کو بد دعا ضرور دیتی تھی اور بیٹے کے بہیمانہ قتل کے ٹھیک ایک سال بعد چوہدریوں کا سارا ٹبر ایک روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ میں جان کی بازی ہار گیا تھا، چوہدریوں کی حویلی بھی اب اتنی ہی ویران ہو چکی ہے جتنا بڑھیا کا جھریوں والا چہرہ.
اللہ جانے لوگ اللہ کی زمین پہ اپنے ہی جیسے لوگوں پہ اتنے ظلم کیوں ڈھاتے ہیں.؟؟؟؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور یہ کیوں کیوں کی گردان، امن پسند، کمزور اور محروم لوگوں کے تن من پہ ایک تازیانے کی طرح بجتی ہے.
وہ میری مسجدیں گرانے لگے
ہاے مندر وہ میرے ڈھانے لگے
کلیساؤں کو روندنے میں رہے
گردواروں کو گرانے میں رہے
انھیں تھا شوق خون پینے کا
ننھے بچوں کا خون پیتے رہے
عورتوں کو وہ دبانے میں رہے
وہ جہاں روکا گیا، جانے سے
اسی دنیا میں وہ جانے پہ رہے
جہاں جلتے تھے پر فرشتوں کے
اس آشیاں کو مٹانے میں رہے
مولا نے تو سکھایا امن کا درس
لوگ بس لڑنے لڑانے میں رہے
ہاے کس طرح سے جیتے پونم
خوف اپنے ہی ٹھکانے پہ رہے
تو وہ سن رسیدہ بوڑھا جس کا نام سلمان مصطفیٰ تھا، وہ بزرگ جو خاک میں مل کر کسی بھی وقت خاک ہونے کو تیار بیٹھا تھا، وہ بڈھا جو اپنے وقت کا پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور طب کی مختلف شاخوں کا ماہر پروفیسر تھا وہ بزرگ جو ایک پرامن خطے میں امن و سکون سے ایک خوشحال زندگی گزار رہا تھا وہ بزرگ جس کی بیوی بھی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھی، وہ بزرگ جس کے چاروں بچے اچھے سکولوں، کالجوں میں زیر تعلیم تھے، اچھی زندگی گزارنے والوں کو نجانے کس بد بخت کی سازش کھا گءی کہ انھیں اپنے ہی دیس سے دیس نکالا دے دیا گیا ان کی عورتوں کی سر عام بے حرمتی کی گءی ان کی بڑے ہی منظم طریقے سے نسل کشی کی گءی ان کے معصوم بچوں کو تہہ تیغ کر دیا دیا گیا اللہ جانے ظالموں کا کیا ارادہ تھا کہ اللہ کی زمین پہ اللہ کے قانون کو ہاتھ میں لے کر اللہ ہی کی مخلوق کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا گیا،
ایک کربلا تھی وہ
جس میں لٹے حسین تھے
ایک کربلا ہے یہ
جس میں مسلماں لٹ گیے
تو ماہر تعلیم ڈاکٹر سلمان مصطفیٰ کے سامنے بھی ان کی بیوی کی عصمت دری کی گءی بچوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور پروفیسر صاحب بس یہ سوچتے ہی رہ گیےکہ اللہ پاک نے تو جہاد کا حکم صرف اکتالیس بار اور پیار محبت کا حکم تین سو پچپن دفعہ قرآن پاک میں دیا ہے تو انسان کیوں اپنی حکومت کے دوام کے لیے اتنی کمینگی پہ اتر آیا کہ نہتی عورتوں اور معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگ گیا. جی وہی عورتیں اور معصوم بچے جن کے لیے نبی آخر الزماں رسول پاک حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جنگ میں عورتوں اور معصوم بچوں کو ہرگز نقصان نہ پہنچایا جاے.
تو یاد رکھیے گا جس جنگ میں بھی خواتین اور معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے ذہانت کے جنازے اٹھاے جاتے ہیں آہوں کے ہار پہنے جاتے ہیں وہ تخت، شاہوں اور جانشینوں کے لیے عذاب ہی ہوتے ہیں.
یزیدیت کی ہار ہوتی ہے
حسینیت ہی سر بلند ہے سدا
سلمان مصطفیٰ کی آہ ہی کافی ہے اس گروہ جن وانس کی مکروہ سوچ اورفکر کے لیے جنہوں نے طاقت کے بل بوتے پہ اس کے گھر کو ویران کر ڈالا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com
Leave a Reply