پونم سے میری پہلی ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے یہ کءی برس پہلے کی بات ہے ایک صاحب نے پونم سے میرا تعارف کروایا کہ یہ پونم نورین صاحبہ ہیں، ڈاکٹر ہیں اور شاعری کرتی ہیں لیکن ایک ڈاکٹر کی وہ اپروچ نہیں ہو سکتی جو ایک خالص شاعر کی ہونی چاہیئے. ان کا دل اتنا گداز نہیں ہو سکتا اور سونے پہ سہاگہ یہ اپنے شوہر نامدار سے محبت کرتی ہیں اور انہی کے لیے شاعری کرتی ہیں یعنی شوہر نامدار ہیں ان کی شاعری کا مدارتو اتنی محدود سوچ رکھنے والی خاتون کیا شاعری کریں گی؟
میں کبھی ان صاحب کو اور کبھی شاعرہ ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی جو مطمئین آنکھوں کے ساتھ دھیرے دھیرے مسکراتی ہوئی سب سن رہی تھی، پونم نے کہا(میں پونم نورین کو ہمیشہ پونم ہی کہتی ہوں ایک تو اس میں نغمگی ہے دوسرے اس پہ جچتا ہی یہ نام ہے حالانکہ تخلیق ہے) جی ہاں محبت کرتی ہیں اپنے شوہر نامدار سے اور اس میں کون سی قباحت ہےاور اس وقت پونم نے ایک شعر سنایا تھا.
ہوا کو بھی نہیں اجازت
تیرے میرے بیچ آے جاناں
کہاں سے یہ آ گیا زمانہ
خیر ہم تب سے دوست بن گیے، یہ تعارف والا واقعہ اس لیے سنایا کیونکہ جو چیز یا جو محرک ہو آپ کی تخلیق کا وہ بہت ضروری ہے بیان کرنا، محبت محدود ہی تو ہونی چاہیے خالص توحید کے نظریے کی طرح. شاعر نے کیا خوب کہا تھا ناں کہ
ہم محبت میں بھی توحید کے قایل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بناے رکھا
تو محبت کی بنیادی شرط ہی وفاداری ہے. ایک شخص میں پوری دنیا، پوری کائنات ہوتی ہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ شاعری کے لیے درجن بھر محبت کے تجربات درکار ہوتے ہیں بلکہ جہاں احساسات کی تقسیم وسیع پیمانے پہ ہو وہاں تو پونم کی ایک نظم جس کا عنوان ہے(سندیسے یار نے بھیجے بہت ہیں) جو ان کی کتاب ہم تیرا دل چراے بیٹھے ہیں میں سے اقتباس ہے، آج میں ان کی اسی کتاب پہ بات کروں گی. نظم. موجودہ دور کے عشاق کی بھر پور ترجما نی کرتی ہے، جہاں ہم whatsapp پہ پیار کے پھول، نظمیں، تصاویر اور نجانے کیا کچھ ایک ہی کلک سےبہت سارے پیاروں کو بھیج دیتے ہیں.
سند یسے یار نے بھیجے بہت ہیں
مگر بھیجے کءی حسینوں کو
شہر راوی کے سب نگینوں کو
پونم نے تو بہت ساری خواتین کے دل کی بات کر ڈالی. میرا یہی موقف ہے کہ کہ کچھ پیغام کچھالفاظ بڑے خاص ہوتے ہیں جو زبان زد عام نہیں ہو سکتے وہ عوامی نہیں بلکہ بڑے محدود بلکہ صرف اور صرف فرد واحد کے لیے ہوتے ہیں انہیں ہم send to all نہیں کر سکتے. یہاں پونم نے موجودہ دور کے انھی نام نہاد عشاق حضرات کی اس قبیح حرکت کی طرف توجہ دلائی ہے. تو بس یہ نظریہ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ محبت تو ایک دل سے نکل کردوسرے دل میں منتقل ہونے والی لہروں کا نام ہےہاں البتہ شاعرکا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے، دردزہ سے لیکر بھوک، پیاس، جنگ امن اور ہر شے کو اپنے ا ندر شامل کرتا ہے جیسے سڑکوں پہ بھنگڑا ڈالتی بھوک، میں پونم. نےکیا کمال خیال باندھا ہے اور معاشرے کی تکلیفوں کا درد اپنے دامن میں سمیٹا ہے. یہ درد ویسے ایک ڈاکٹر سے بہتر کون جانتا ہے. ڈاکٹر تو ہمارے جسم کی ایک ایک ہڈی، ایک ایک جوڑ کو بخوبی جانتا ہےجسم میں کسی ءجگہ
خون کا دباو کم یا زیادہ ہو جاےتو کیا ہوسکتا ہے، ڈاکٹر کا ہاتھ نہ صرف ہماری نبض پہ ہوتا ہے بلکہ وہ دل و دماغ کے سارے راستوں سے بھی بخوبی واقف ہوتا ہے. آپ کیسی بات کرتے ہیں میاں؟
پونم روح کی گہرائیوں اور پنہایوں کا سفر بھی بخوبی کراتی ہے. رقص تو توبہ شکن ہوتا ہے میں بہت عمدہ پیراے کے دنیا اور دنیا سے ماورا ح باندھے ہیں. محبت کرتے کرتے یکدم یہ تصوف کی دنیا میں آ جاتی ہیں اور پھر دوسرے ہی پل ایک چاے کے کپ کا وعدہ تھامیں مجھے وہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی پردے کو تھامے اپنے محبوب کو دور سے آتا دیکھنے والی لڑکی جس کی بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش اپنے محبوب کو اپنے ہاتھ سے چاے کی پیالی بنانا اور اکٹھے چاے پینا ہوتا ہے پونم کی شاعری کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ شاعری میں کردار کی مناسبت سے الفاظ کا چناو کرتی ہیں کردار اگر سادہ، معصوم اور مقامی ہے تو کردار سادہ، معصوم اور مقامی ہی لکھا جاے گا اور اگر کوئی دانا یا ہرجائی ہے تو وہ اسی ٹون میں بات کریں گی اور خاص بات یہ کہ خوبصورت اور معمول سےہٹ کر نظم یا غزل کا عنوان رکھتی ہیں ملاخطہ کریں، خشک آنکھوں کی بدعاواہ. کیا کہنے. جب آنکھیں رو رو کر سوکھ جاءیں تو ان آنکھوں کی بدعا بڑی ہی خطرناک ہوتی ہے.
جینے والوں سے چھین کے زندگی
ایک بے طرح سی صدا دیں گے.
ءشاعری میں انفرادیت کے لیے اس کے عنوان کا اچھوتا پن بہت ضروری ہے، یہ کمال پونم کی شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہے. ایک نظم ہے سب ہی جھوٹ ہے بابا، کہتی ہیں
معصوموں کو للکارتے
بے کسوں کو مارتے
سارے ہی قابیل ہیں
سب ہی جھوٹ ہے بابا
تاریخی اصلاحات کو شاعری میں استعمال کرنابے حد مشکل کام ہوتا ٧ کیونکہ اپنے خیال اور الفاظ کو آپ جس طرح کے تاریخی واقعہ یا کردار کے ساتھ ملاتے ہیں یہ بڑی مہارت اور فن کی بات ہے پونم اس فن میں بھی طاق ہے. میری دعا ہے کہ جس طرح پونم اپنے مریضوں کو صحت مند کر کے گھر بھیجتی یے اسی طرح اب ان پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھا لیں. ہمارا معاشرہ منافق اور دوغلا ہوتا جا رہا ہے ہم اخلاقی لحاظ سے پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں، معاشرہ بیمار اور گل سڑ چکا ہےآپ ڈاکٹر صاحبہ ہیں، درد اور دردزہ کے تانوں بانوں سے مکمّل طور پہ آشنا اور اللہ پاک نے آپ کو ہنر مسیحائی کے ساتھ ساتھ الفاظ کے جادوگری سے بھی نوازا ہے شاعری کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کیجیے اگر کسی ایک انسان کے دل میں بھی آپ کی شاعری سے احساس کی بتی جل گءی تو میں یہ سمجھوں گی کہ اب اس کی زندگی میں ایک پونم کی رات ہے، پورے چاند رات
نوین روما
Leave a Reply