تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

پیکرانِ صدق و وفا کی تقریبِ جشنِ آزادی

Articles , Snippets , / Friday, August 16th, 2024

تحریر :- احمد ثبات قریشی الہاشمی

جہاں دنیائے فانی میں 14 اگست کا سورج طلوع ہوتے ہی رنگا رنگ تقریبات کا آغاز ہوا۔پاکستان کا پرچم تھامے اور دل میں حب الوطنی کا دیپ جلائے میں بھی دیوانہ وار ملک کے چپے چپے کو محبت و عقیدت کی نظروں سے چومتا گھر سے باہر نکلا۔ہر جگہ ہر فرد اپنے اپنے انداز سے محبت کا اظہار کرتا پھر رہا تھا۔کوئی ملی نغمے بلند آواز میں بجاتا تھا تو کوئی تیز گاڑی و موٹر سائیکل دوڑاتا پھر رہا تھا۔ چند من چلے عجیب ناچتے دِکھ رہے تھے اور ہاتھوں میں باجے تھامے زور زور سے بجا رہے تھے۔ایک عجیب شور و غل مچا تھا۔میری طبیعت اس شور و غوغا سے اکتانا شروع ہوئی تو سکون کی تلاش میں اپنی موٹر سائیکل شہر سے دور لے گیا سوچا ہر ایک کا اپنا اندازِ عقیدت ہے۔اگر میں کلاسیکی مزاج کا ہوں اور وطن سے محبت کے اظہار کو عقیدت و احترام کے ساتھ پیش کرنے کا قائل ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی اور اس کا قائل نہ ہو اور ہیجان خیزی ہی اس کی عقیدت ہو یہی عقیدت میں کلاسیکی و ہیجان خیزی میں درست کون غلط کون کی گتھی سلجھاتے سلجھاتے میں شہر سے بہت دور نکل گیا۔
اگست کا مہینہ پورے برصغیر پاک و ہند اور خصوصاً پنجاب میں بہت سخت مانا جاتا ہے شدید حبس اور گھٹن کا ماحول۔مزید ستم یہ کہ سورج بھی اپنے قہر سے سب کو دبکاتا پھرتا ہے۔میں نے موٹر سائیکل روکی اور ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ گیا جو بانہیں پھیلائے کسی مہربان میزبان کی مانند ہر خاص و عام کو سکون بھری چھاؤں دے رہا تھا۔پتے ہوا نہ ہونے کے باعث بالکل ساکت تھے یوں گمان ہوتا تھا کہ ان پر دفعہ 144 کا اطلاق ہوا پڑا ہے کہ اگر کچھ بولے یا ہلے تو قید کر دیئے جاؤ گے۔ کچھ لمحات گزرے ہی تھے کہ ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے طبیعت میں گھٹن اور بےچینی کو راحت میں تبدیل کر دیا وہی پتے جو حبس زدہ ماحول میں ڈرے سہمے چپ سادھے بیٹھے تھے ان پر رونق عود آئی اور وہ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوا کے دوش ہر رقص کرنے میں مصروف ہو گئے اور خوشی سے جھوم جھوم کر آزادی کے گیت گانے لگے۔میں اس پر لطف ماحول سے محظوظ ہورہا تھا کہ میری نگاہوں کے کینوس میں ایک شامیانہ ٹھہر گیا۔محسوس ہوا کہ دور کہیں کوئی تقریب منعقد کی جا رہی ہے۔دل میں آیا کہ آج چودہ اگست ہے شاید کسی کے بیاہ کی تقریب نہ ہو لیکن پھر سوچا کہ شاید یہ کوئی یومِ آزادی کی تقریب ہے۔اسی ادھیڑ بن میں ایک عجب سی کشش محسوس ہوئی اور قدم خود بخود اس تقریب کی طرف بڑھے کہ چلو دیکھتے ہیں وہاں کیا ہو رہا ہے
پیدل ہی اس جانب چل پڑا ۔اس شامیانے کو چاروں اطراف سے سبز ہلالی پرچم سے سجایا گیا تھا سوچا چلو اچھا ہے یہ تو کوئی یومِ آزادی کی تقریب ہے لہٰذا میں بھی شامیانے میں داخل ہو گیا۔اندر داخل ہوا تو محسوس ہوا کہ باہر جو حبس زدہ ماحول تھا اس سے یکسر مختلف اندر کا ماحول انتہائی ہرکیف اور پرسکون تھا۔خاموشی سے پنڈال میں لگی آخری رو کی ایک نشست پر بیٹھ گیا۔
عمومی تقاریب کے برعکس اس پنڈال میں عجب روحانیت پھیلی ہوئی تھی پنڈال میں موجود لوگوں کے چہروں پر عجب نور برس رہا تھا۔ہر فرد گانے بجانے اور شور و غوغا کرنے کی بجائے ذکرِ الہٰی میں مشغول دِکھ رہا تھا جس کے باعث پنڈال رنگ و نور اور ذکر اللّٰہ کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔جگہ جگہ “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” کے بینر مشک و زعفران کے ساتھ لکھے لہرا رہے تھے۔
ایک صاحب جن کی پیشانی کشادہ اور چہرے پر عجب وقار تھا وہ میری جانب بڑھے اور گویا ہوئے “تم یہاں کیا کر رہے ہو”۔میری چوری پکڑی گئی اور میں نے عرض کی جناب یہ یومِ آزادی کا پروگرام ہے تو میں شہر کے شور شرابے اور غل غپاڑے سے بچتا یہاں آن پہنچا یہاں سکون محسوس ہوا تو دل کی تشفی کے لیئے بیٹھ گیا۔اگر آپ کو ناگوار گزرا ہے تو رخصت ہو جاتا ہوں۔وہ مسکرائے اور کہا کہ اگر آ ہی گئے تو پھر یہ تقریب بھی دیکھ کر جانا۔میں نے ان کی اس فراخ دل رویئے کا شکریہ ادا کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔وہ مسکراتے ہوئے پلٹے اور آگے جانے لگے تو میں نے پیچھے سے آواز لگائی کہ محترم یہ تقریب کون کروا رہا ہے۔وہ رکے اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے یہ کارکنان و شہداء تحریکِ آزادی پاکستان کی تقریب ہے اور مسکراتے ہوئے چل دیئے۔میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اے اللہ میں کہاں پہنچ گیا ہوں کیا یہ عالمِ برزخ ہے۔
میں حیرت اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے ادھر اُدھر دیکھنے لگ گیا۔یہ آزادئِ پاکستان کے شہداء اور غازیوں کی بیٹھک کا اہتمام تھا جہاں وہ اپنی قربانیوں کا ثمر پاکستان کی آزادی کی خوشیاں منانے کی تقریب میں شاد اور پررونق چہروں کے ساتھ اکٹھے ہو رہے تھے۔ خوبصورت اور خوشبودار وفا کے لباس میں ملبوس شہداء اور غازیوں کی مسندیں سجائی گئیں تھیں۔ایک خوبصورت سبز پوش اسٹیج سجایا گیا جہاں قائدینِ تحریکِ آزادی نے براجمان ہونا تھا۔مرکزی مسند بانئِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح (رح) کے لیئے سجائی گئی تھی۔میں دَم سادھے بیٹھا اور حیرت بھری نگاہوں سے اس منظر کو تک رہا تھا۔جسم میں اتنی جان بھی نہ تھی کہ ایک قدم بھی اٹھا پاؤں نہ جانے اللہ کی کیا حکمت تھی کہ مجھے یہاں پہنچایا گیا۔

کچھ لمحات گزرے تو نقیبِ محفل نے اعلان کیا کہ قائدِ اعظم محمد جناح(رح)،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال(رح) ،محترمہ فاطمہ جناح شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خاں،سردار عبدالرب نشتر اور دیگر رفقاء پنڈال میں داخل ہو رہے ہیں۔ تمام حاضرینِ مجلس ان کے استقبال کے لیئے اپنی نشستوں سے احتراماً کھڑے ہو گئے۔تمام قائدین باوقار انداز میں کرسیِٔ صدارت کی طرف بڑھتے نظر آئے۔ یہ تمام قائدین اسٹیج پر براجمان ہوئے پورا پنڈال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔فتح و مسرت کے گیت گائے جانے لگے۔شکر الحمد کی صدائیں بلند ہوئیں لوگ جوق در جوق اپنے محبوب قائدین سے ملنے آگے بڑھے ہر کوئی اپنی جماعت کے ساتھ آگے بڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ معصوم بچوں کی ایک جماعت جو دوارنِ ہجرت بے قصور شہید کردی گئی تھی سب سے پہلے آگے بڑھی اللہ کی حمد و ثناء پیش کی اور اپنے محبوب قائدین سے مخاطب ہوئی کہ”ہم ناحق مارے گئے اور ہم نے اپنی جانیں قربان کیں اس مقصد کے لیئے کہ ہمارا اپنا ملک ہوگا جہاں بچوں کو تحفظ دیا جائے گا تعلیم عام ہو گی لیکن اے ہمارے محبوب قائدین آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ایسے لوگ اقتدار میں آگئے جنہوں نے آپ کے فرامین کو یکسر نظر انداز کر دیا اسکولوں کو مویشی گاہ بنا دیا تو کہیں اسکولوں کی زمینوں پر قبضے کیئے گئے۔ بچوں کو جنسی درندوں کے ہاتھوں رسوا ہونے کے لیئے چھوڑ دیا گیا۔بتائیے اب کیا کیا جائے۔” بچوں کے مطالبات دیکھ کر قائدین کے چہروں پر پریشانی واضح دیکھی جا رہی تھی
دوسری جماعت ان خواتین اور بچیوں کی آگے بڑھی جن کی عصمت دری دورانِ ہجرت کی گئی ان میں بہت سی ایسی خواتین تھیں جنہوں نے دریاؤں اور کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر جان کی قربانی تو دی لیکن اپنی عصمت پر آنچ نہ آنے دی ان تمام شرم و حیاء کی دیویوں نے اپنے قائدین سے کہا کہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد عورت کو تماشہ بنا دیا گیا ملکِ پاکستان میں آج بدمست جوان موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر ہماری ہی بیٹیوں کے دوپٹے اڑاتے پھرتے ہیں۔تو کوئی سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی عصمت دری کا سامان لیئے بیٹھے ہیں۔ کہیں جشنِ آزادی کی آڑ میں خواتین کو حراساں کیا جاتا ہے تو کہیں اسکول جاتی بچیوں کو حرص بھری نگاہوں سے دیکھ کر اپنی شہوت کا شکار کیا جاتا ہے اور جملے کسے جاتے ہیں ہمارے باپوں بھائیوں اور بیٹوں نے تو ہماری عصمتیں بچانے کے لیئے اپنی جانیں قربان کر دیں تھیں لیکن افسوس آج ان کی اولادیں اس ارضِ پاک کو شہوت ستانی اور ہلڑ بازی سے ناپاک کرنا مردانگی جانتے ہیں۔قائدین کی آنکھیں اس خطاب کے بعد پرنم ہو گئیں۔
تاجروں اور کسانوں کی جماعت مشترکہ طور پر آگے بڑھی اور کہا ہمارے عزیز قائدین ہم نے ملکِ پاکستان کے حصول کے لیئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ہم بھرے گھر چھوڑ آئے اور بہت سوں نے تو ملکِ پاکستان پہنچ کر کسی قسم کا کلیم بھی نہ کیا جس کی سب سے بڑی مثال ہمارے قائد نوابزادہ لیاقت علی خان ہیں ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہم نے قربانی دی اور ارضِ پاک کی تعمیر و ترقی کے لیئے کوشاں رہے مگر افسوس بعد والوں نے ہماری قربانیوں کی قدر نہ کی اور اس ارضِ مقدس کو مالِ غنیمت سمجھ کر جس کے جو ہاتھ لگا وہ لے اڑا۔
حاضرینِ مجلس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح(رح) سے گذارش کی کہ وہ خطاب فرمائیں اور قوم کی ہمیشہ کی طرح راہنمائی فرمائیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح (رح) نے پورے پنڈال کی جانب دیکھا اور اپنے خطاب کا آغاز کیا آپ نے فرمایا میرے ہم وطنوں ہم نے خلوصِ نیت کے ساتھ جو ملک حاصل کیا اور نامساعد حالات کے باوجود ملک کو ترقی کی جس راہ پر ڈال کر آئے تھے اس میں کوئی شک نہیں ہمارے بعد آنے والوں نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور اناء پرستی کی تسکین کے لیے ملکی مفادات داؤ پر لگا دیئے جس کے باعث آج ہمارے ملک کے باسی وہ سب کچھ نہ پاسکے جس کے حصول کا ہم نے خواب دیکھا تھا اور بنیادی عملی اقدامات کیئے تھے۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ آخر اس وقت ملک میں بنیادی غلطی کیا ہے میں اپنی قوم کو کامیابی کا بنیادی گر دے کر آیا تھا یعنی “ایمان اتحاد تنظیم” آج بھی میری قوم اگر اس پر عمل کر لے تو ان بحرانوں سے نپٹا جا سکتا اور مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ اللہ عزوجل اپنی رحمتِ خاصہ سے ارضِ پاک کو ان تمام بحرانوں سے نکال لے گا جس کا آج وہ آج شکار ہے۔کیونکہ اللہ پاک آپ سب کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گا۔اس ملک کے حصول کا مقصد بہت بڑا تھا۔”مسلمان کسی کی غلامی نہیں کر سکتا” اس بنیادی فسلفے کے لیئے ہم نے کوشش کی اور علیحدہ مملکت قائم کی آج جو لوگ اس آزادی کی قدر نہیں کررہے وہ اپنے ہمسایہ ملک میں جھانک کر دیکھیں کہ وہاں کے مسلمان کن مشکلات کا شکار ہیں۔قائد نے فرمایا ہم نے آزاد ریاست قائم کردی ان شاء اللہ اب یہ ریاست مزید مضبوط ہوگی اور ان کی ترقی فقط “ایمان اتحاد تنظیم” میں پنہاں ہے ہر فرد اپنی اپنی جگہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو پاک صاف قیادت خود بخود ابھر کر سامنے آئے گی اور ملک دوبارہ اس منزل کی جانب رواں دواں ہوجائے گا جہاں سے وہ راستہ بھٹک گیا تھا
آخر میں قائدین اور شرکائے محفل نے ملکی ترقی کی دعائیں کیں ایک شہید جذباتی ہو کر اسٹیج پر چڑھے اور فلک شگاف نعرہ بلند کیا “پاکستان کا مطلب کیا” سب نے اور بے ساختہ میں نے بھی بلند آواز میں کہا “لا الہ الا اللہ” اور ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے بستر پر براجمان ہوں اور زباں پر “لا الہ الا اللہ” جاری ہے۔
اے میرے رب کیا یہ خواب تھا نہیں یہ خواب نہیں تھا یہ حقیقت تھی مجھے بتایا گیا تھا کہ میں ان شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کی قدر کروں مجھے راستہ دکھایا گیا تھا کہ “ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”۔مجھے بتایا گیا تھا کہ ہم دوسروں کو کوسنے کی بجائے فقط اپنے آپ کو سدھار لیں تو پوری ملت درست راستے پر گامزن ہو جائے گی۔مجھے بتایا گیا تھا کہ کامیابی کی کنجی “ایمان اتحاد اور تنظیم” ہے۔اگر آج ہم اس پر عمل کریں تو وہ خواب شرمندۂِ تعبیر ہونے میں دیر نہیں لگے گی جسے ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا حواس قائم ہوئے تو بے اختیار میری زبان سے بھی نعرۂِ مستانہ بلند ہوا “پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ ”


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International