rki.news
شاعری جام جم نہیں تو اس کا متبادل ضرور ہے اور شاعر بھی اس امر پر کار بند ہوتا ہے کہ وہ اپنے محسوسات و جذبات کے آئینے میں زمانے کی حالیہ تصویر دکھا سکے۔لہذا شاعر اپنے عہد کا مصور ہوتا ہے۔اس کا ذہن بالیدہ ہوتا ہے اور زمانے کو پرکھنے کا پختہ شعور بھی رکھتا ہے اور پھر جس نے مدتوں زمانے کے بدلتے روپ کو دیکھا ہو ، قدیم روایات کی پاسداری بھی کی ہو اور نئے زمانے سے ہم آہنگ بھی ہو بلاشبہ وہ آنکھیں جو دیکھتی ہوں گی اس کے ظاہری اور باطنی مرتبے ،خصوصیات ،اس کے دورس اثرات اور نتائج سے بھی خوب آشنا ہوں گی۔اشرف یعقوبی ایسے ہی دور بین نگاہوں کے مالک ہیں۔عرصہ دراز سے گیسوئے غزل سنوارنے میں مصروف ہیں۔اردو شاعری میں غزل شہر سخن کی سب سے دلنشیں عمارت ہے جس کی دلکشی ہر ایک دل کو یکساں متاثر کرتی ہے۔اس عمارت پر وقت کی گرد نہ بیٹھی ہے اور نہ مستقبل میں اس کے آثار ہیں۔میں اس بات سے قطع نظر کہ شاعر بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ شاعر بس شاعر ہوتا ہے۔کسی بھی طرح کی حد بندیوں سے آزاد ۔اشرف یعقوبی اردو شاعری کا ایک اہم اور معروف نام ہے۔ان کی حالیہ تصنیف “کھڑکی سے باہر کی دنیا” ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس کے قبل دو شعری مجموعے “سرخ آبی پرندہ ” اور “پاگل ہوا پردے میں ہے” شائع ہوکر دادو تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اشرف یعقوبی ایوان ادب میں اپنی شعری صلاحیتوں کے جلوے بکھیر چکے ہیں۔شعر گوئی سے ان کی رغبت قابل دید ہے اور ایسے ہی قلمکاروں سے ادبی فضا معطر ہے۔اپنے نوک قلم سے اشعار کے نئے خد و خال تشکیل کرتا ہوا یہ شاعر جب باہر کی دنیا کو کھڑکی سے دیکھتا ہے تو اس کے اندر مختلف جزبات بھڑک اٹھتے ہیں ٹھیک ویسے ہی احساسات کا تضاد ابھرتا ہے جیسے ہم پو پھٹتے ہی اونچے چھتوں سے اپنی ہی بستی کو دیکھتے ہیں۔یہ مناظر رات کے دوسرے پہر سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔کبھی اپنا وجود کھوتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو کبھی اپنا ہی وجود پوری کائنات میں دکھائی دیتا ہے۔160 صفات پر مشتمل اس شعری گلدستے میں حمد ،نعت،غزلیں اور نظمیں ہیں۔
میں شاعر کے اس مجموعے میں شامل حمد کے ایک شعر سے ہی کھڑکی سے باہر کی دنیا دیکھنے کی کوشش کروں گا۔
حرکت اپنی برکت اس کی
محنت اپنی اجرت اس کی
کتنا سہل اور آسان شعر ہے لیکن جب ہم اس شعر کے مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تب اس شعر کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔بظاہر آسان دکھنے والا یہ شعر بہت گہرا شعور عطا کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ اگر کائنات میں کسی کو کچھ ملا ہے تو رب سے ملا ہے ،کبھی بھول کر بھی یہ بات گمان میں نہ آئے کہ اس کی اپنی کمائی ہے ۔انسان عمل کرتا ہے بغیر اس کا نتیجہ جانے یہ اس کا توکل ہی ہے کہ اس کا رب اس کی محنت رائیگاں نہیں جانے دےگا۔ اس کی بخششیں بے حساب ہے۔انسانی محنت اپنی جگہ اس کی رحمت کے بغیر کچھ ہونے کو نہیں۔اس شعر میں شاعر نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ انسان کا عمل کرنا شرط اول ہے مگر وہ اس حقیقت کو جان لے کے انجام وہ دے گا کیونکہ ہمارے اعمال ایسے بھی نہیں کہ ہم اپنی مرضی سے اپنا مطلوبہ نتیجہ حاصل کرسکے۔حمد کا خوبصورت شعر ہے۔
نعت کا بھی ایک شعر آپ کے گوش گزار کرتا چلوں۔
ذکر صل علیٰ کا یہ فیضان ہے
پاک ہر رنج سے دل مرا ہوگیا
صل علیٰ کا ورد دل کو پاک کرتا ہے۔نام محمد کا فیضان زندگی کو معطر اور تابندہ بنا دیتا ہے۔وہ زبان بھی کیا زبان ہے جس پہ خیر البشر کا ذکر نہ ہو اور اس دل کی کیا وقعت جس میں ذکر سید البشر کی صدا نہ گونجے۔ بے شک جس زباں پر خیرالامم کا ذکر ہوتا ہے اس کے دل سے خدا رنج دور فرمادیتا ہے۔
اشرف یعقوبی کی غزلوں میں زندگی کی مختلف شیڈس ملتے ہیں۔ایک ماہر نباض کی طرح وہ زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور ان تمام تر حقیقتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جن کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔انسانی اقدار کا زوال ہو یا معاشرتی نظام کا اتھل پتھل، دنیا کی بے ثباتی ، گزرے کارواں کی بازگشت ،روز روز ٹوٹتی وفا کی ڈور ہو یا مسائل کے سمندر میں ہچکولے کھاتی زندگی کی کشتی ، مٹی کے پتلے کی مغروریت یا مفلس کے دل سے نکلتی فلک شگاف صدائیں یا اللہ مدد ! یا اللہ مدد ! یہ سبھی وہ موضوعات ہیں جو مختلف شکلیں اگا کر ہماری زندگی میں نمودار ہوچکے ہیں اب تا حیات ان سے صلح یا جنگ جاری رہے گی۔دنیا چند روزہ ہے یہ وہ حقیقت ہے جو صرف دوسروں کو سنانے تک ہی محدود ہوگئی ہے۔انسانی قول و فعل کے تضاد نے سارے فلسفوں کو مشکوک کردیا ہے۔بارہا ان حقیقتوں سے آشنا بھی فرعونیت کو اپنا لیتا ہے۔یہ شعر دیکھیں اس کی حقیقت دیکھیں اور شاعر کی اس حقیقت بیانی کی داد پیش کریں۔
تجھ کو دیکھا جو منوں مٹی تلے دبتے ہوئے
یاد آیا تری دولت کا ہمالہ مجھ کو
شاعر کی آنکھیں ان تمام واقعات کو دیکھتی رہتی ہیں جو دنیا اور ملک میں ، اس کے قرب وجوار میں رونما ہوتے رہتے ہیں اور جن کا ہونا اب کوئی حیرت کی بات نہیں۔انسانیت پر بربریت کا ننگا ناچ سارا جہاں دیکھ رہا ہے ایسی بے حسی افسوس ناک ہے اور ایسی بربریت پر ایک قلم کار خاموش نہیں رہ سکتا وہ کڑھتا ہے اس کی بے کراں طبیعت اسے چپ رہنے نہیں دیتی وہ کہہ اٹھتا ہے۔
کبھی سوال کرے گی نئی نسل تم سے
ہوا ہے شہر میں جینا حرام کس کے لئے
اشرف یعقوبی کی غزلوں میں ایک تازگی کا احساس جاگتا ہے۔یہ احساس اس وقت اور شدت اختیار کرلیتا ہے جب وہ سہل انداز اور آسان لفظوں میں کہہ گزرتے ہیں۔اشعار میں پیش خیال کی ترسیل میں کوئی ذہنی مشقت نہیں کرنی پڑتی ۔بظاہر سہل دکھنے والے اشعار میں اتنی گہری باتیں بول جاتے ہیں کہ جن کے بیان میں کئی صفحے سیاہ کرنا پڑے۔اشعار میں پیچیدگی نہیں ہے اور لفظوں کی ہنر کاری بھی نہیں ہے۔مشکل پسندی اشعار کو خوبصورت بھی بناتی ہے اور بیشتر اوقات مبہم بھی۔جدید دور مصروفیت کا دور ہے اور ان کی شاعری اس جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔غزل کی یہی خوبی اس کی شناخت بچانے کو کافی ہے کہ وہ زمانے کے بدلتے مزاج کے ساتھ ساتھ اپنے موضوعات اور انداز بیاں کو بدلتی رہی۔اشرف یعقوبی کی شاعری ہمارے سماج سے ہمیں راست ملاتی ہے۔ ہم ان واقعات کو معمولی اور غیر اہم جان کر نظر انداز کردیتے ہیں انھیں موضوعات میں پنہاں گہری حقیقت کو اشرف یعقوبی اپنے اشعار میں پیش کرتے ہیں۔
ہمارے شہر میں کچھ لوگ ہیں جو ماربل جیسے
یقیں مانو یہ ان کی نوکری سے ہو نہیں سکتا
مجموعے میں شامل غزلوں میں تہذیب کی شکست وریخت ، مشینی ترقی کی بھاگم بھاگ ، پیار اور اعتبار کی ڈھلتی شام ، لفظوں کے بدلتے مفاہیم ، زندگی اور زندہ رہنے کے فلسفے کی تصویریں پیش کرتے ہیں۔کہیں کسی موڑ پر شاعر کا لہجہ اختلاف اور احتجاج کی صورت اختیار کرتے ہوئے کرخت ہوجاتا ہے تو کہیں درپیش حالات کی مطابقت پر متفق ہوجاتا ہے غرض کہ جسم کی عمارت میں دل کی کھڑکی سے جھانک کر کبھی بہار کے گزرتے قافلے کو دیکھتا ہے تو کبھی منافرت کی اندھی ہوا میں آتش لرزاں کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اشعار میں مشاہدات و تجربات کے نمایاں نقوش جابجا ملتے ہیں۔
اسلوب کی سادگی بہت متاثر کرتی ہے۔
تمہارے چہرے پہ میری دعاؤں کے جگنو
چمک رہے ہیں اندھیرے میں روشنی کی طرح
اس کے گھر کی میں اک ضرورت ہوں
کوئی رکھتا نہیں خوشی سے مجھے
اکڑ رہا تھاجو بام عروج پر فرعون
ہزاروں کوششوں کے بعد بھی خدا نہ ہوا
بے دودھ کی چھاتی سے وہ لپٹا ہوا بچپن
ماں جس کو سناتی رہی راجہ کی کہانی
رومانیت غزل کے موضوعات میں ایک اہم موضوع ہے۔اشرف یعقوبی کی شاعری کے آنگن میں محبوب اپنے اب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔وہ محبوب کے سر کوئی الزام نہیں دھرتے۔انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ سردربار اظہار محبت بڑی جرات ہے اور وہ اس اظہار پر اپنی خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
محبت یہ تمہاری جرأت اظہار کافی ہے
ہم اپنا کہا تم نے سر دربار کافی ہے
کون جانے کون سا جادو تری آنکھوں میں ہے
جھانکنے والا تری آنکھوں میں تیرا ہوگیا
انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ شرف کسی مخلوق کو حاصل نہیں۔انسان کی زندگی اور ضرورتیں مختلف نوعیت کی ہے اور ان بے شمار مسائل سے نبردآزما انسان خطاؤں کا سزاوار بھی ہوتا ہے۔انسان کے ساتھ جذبات ہیں، رشتے ہیں،بھوک ہے ،دکھ ہے اچھے برے انسانی خصوصیات ان کیفیات سے پر انسان خالق کی بہترین تخلیق ہے۔شاعر اپنے انسان ہونے پر نازاں ہے۔
مجھے بخش دے خوئے انسانیت
فرشتہ صفت پارسائی نہ دے
شاعر کا حساس ہونا شعر گوئی کے لئے نہایت اہم ہے ۔ایک حساس دل ہی ان کہی کو محسوس کرسکتا ہے اور اس ان کہی کی روداد سناتا ہے۔اشرف یعقوبی ایک حساس دل کے مالک ہیں۔آپ بھی دیکھئے ایک شعر میں انھوں نے بدلتے یگ کا نوحہ کس طرح پیش کیا ہے۔
زنجیر کی جھنکار پر کرنا ہے کرو رقص
اب شاعری پازیب کی جھنکار نہیں ہے
عصر رواں میں انسان کو ہزارہا مسائل کا سامنا ہے ۔حالات یکسر بدل چکے ہیں۔رت بدلی، ریت بدلی ،نظارے بدلے ،انصاف کا میزان بدلا ، برق رفتاری سے سب کچھ بدل رہا ہے کہ سال اور صدی کا فرق مٹتا جارہا ہے ۔ایسی صورتحال میں شاعری کا مزاج بدلنا لازم ہے۔
اشرف یعقوبی کی اشعار میں محاکات نگاری کی بھی عمدہ مثال ملتی ہے ایک شعر دیکھیں۔
دیکھ کر یہ دست قدرت کا ہنر اچھا لگا
برف کی پوشاک میں ننگا شجر اچھا لگا
اس نام نہاد جادوئی ترقی نے پلگ جھپکتے بہت کچھ غائب کردیا۔اخلاص و محبت تو حالت نزع میں پہلے ہی تھیں ،بھائی چارگی ،اتحاد اور پریم کی بانی بھی کھونے لگیں۔ایسے مناظر نمودار ہونے لگیں جن کا قیاس لگانا بھی مشکل تھا۔اس ترقی نے انسانی زندگی کو جتنا advance کیا ہے اتنا ہی بے ضمیری اور بے حسی کو راہ دی ہے۔عریانیت کو ماڈرنزم کہنا کہاں تک درست ہے۔اس تناظر میں یہ شعر پیش خدمت ہے۔
ابھی تو بے لباسی کا ہی منظر تم نے دیکھا ہے
ابھی کیا کیا دکھائے گی یہ دنیا دیکھتے رہنا
مجموعے میں سات نظمیں شامل ہیں۔ان نظموں میں ایک کرب کا احساس ہے جو زندہ ضمیروں کا احساس ہے۔نظم “بت بولنے لگے” ملک اور دنیا کی حالیہ تصویر پیش کرتی ہے۔نظموں کا تیور بتاتا ہے کہ شاعر کے سینے میں ایک خوبصورت سماج کی تشکیل کا ایک مستحکم عزم موجیں مار رہا ہے ۔نظم کا انقلابی لہجہ متاثر کرتا ہے۔مجموعے میں شامل نظمیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شاعر اپنے ماحول میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعات پر گہری نظر رکھتا ہے ۔نظم “مہلک بیماری کے نام ” ان دنوں کی خوفناک یادوں کو تازہ کر دیتا ہے جس نے انسانی زندگیوں کو شدید خوف کے سائے میں لا کھڑا کردیا تھا۔”خون سستا ہے”,نسل نو “آؤ کہ مل کے گیت محبت کے گائیں ہم ” اور دوسری نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔نظموں میں بلند حوصلہ اور مثبت نظریہ شاعر کو ان شعراء کی صف میں کھڑا کردیتا ہے جن کے دم سے شہر سخن آباد ہے۔
اشرف یعقوبی کی شاعری قاری کے دل پر سیدھا اثر کرتی ہے۔خیال کی ندرت ، زمینی حقیقتوں کی ترجمانی ، موضوعات کا تنوع اور بیان کی سادگی کے مد نظر یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی شاعری کی گونج تا دیر سنی جائی گی۔ مجھے امید ہے اشرف یعقوبی کے اس شعری مجموعے کی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پزیرائی ہو گی۔رب دو جہاں ان کے حوصلے کے ساتھ ان کے قلم کو جواں رکھے۔آمین
نسیم اشک
جگتدل 24 پرگنہ (شمال)مغربی بنگال
Leave a Reply