rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند اردو، ہندی اور انگریزی ادب کے ممتاز شاعر، نقاد، محقق اور ماہر تعلیم تھے، جنہوں نے اپنی علمی و ادبی زندگی کو زبان و ثقافت کے درمیان مکالمے کے ایک پُل کی صورت میں ڈھالا۔ ان کی پیدائش 24 اپریل 1931 کو ضلع جہلم (موجودہ پاکستان) کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ سولہ برس کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ بھارت چلے گئے جہاں انہوں نے تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ انہوں نے اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں اور بعدازاں انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم و تدریس سے وابستگی کے دوران وہ بھارت، لبنان، نائجیریا، اور آخر میں امریکہ کی کئی جامعات میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا اصل میدان شاعری تھا، جہاں ان کی نظموں اور غزلوں نے روایت اور جدت کا ایسا امتزاج پیش کیا جو قاری کو فکری اور جمالیاتی دونوں سطحوں پر متاثر کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں فلسفہ، روحانیت، تاریخ، اور عصری مسائل کا گہرا شعور ملتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب میں رباعی کی روایت کو بھی ایک نیا رخ دیا اور اس صنف کو معاصر موضوعات سے ہم آہنگ کیا۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی اس کا بین الاقوامی مزاج ہے جو قاری کو سرحدوں سے ماورا لے جاتا ہے۔
وہ کئی عشروں تک اردو کی عالمی بزموں میں ایک معروف آواز کے طور پر شامل رہے۔ ان کی تحریریں محض جذباتی یا تخیلاتی اظہار نہیں بلکہ علم، تجربے اور بین الثقافتی شعور کی آئینہ دار تھیں۔ انہوں نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تنقیدی مضامین بھی لکھے، جو تحقیق اور نظریہ سازی کے لحاظ سے اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں مختلف جامعات کے نصاب کا حصہ بن چکی ہیں۔
ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو ان کی ادبی خدمات پر متعدد قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ نہ صرف اردو ادب کی نمائندہ شخصیت تھے بلکہ عالمی ادب میں بھی ان کا ایک مقام تھا۔ ان کی وفات 2 اگست 2025 کو ٹورونٹو کینیڈا میں ہوئی، اور ان کے ساتھ اردو ادب کا ایک روشن باب بند ہو گیا۔ لیکن ان کی تحریریں، ان کا اندازِ فکر، اور ان کی علمی میراث ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ستیہ پال آنند اپنے پیچھے وہ فکری اور تخلیقی ورثہ چھوڑ گئے ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
Leave a Reply