rki.news
اردو ادب کی تاریخ ایسے نابغۂ روزگار افراد سے مزین ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو تحقیق، تدریس،تنقید اور شاعری کے تناظر میں وقف کر کے اپنے عہد کو فکری سرمایہ عطا کیا۔اس روایت کے امین عصرِ حاضر کے قابلِ فخر شاعر، ادیب، محقق اور معلم ڈاکٹر عبدالصمد نور سہارن پوری ہیں، جو علم و ادب کے سفر میں ایک معتبر حوالہ بن چکے ہیں۔ان کی شخصیت ہمہ جہت ہے، اور ان کی ادبی و علمی کاوشیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ محض قلم کے مسافر نہیں بلکہ فکر و دانش کے امین ہیں۔
1982ء میں سہارن پور کے علمی و دینی ماحول میں جنم لینے والے ڈاکٹر عبدالصمد نے ابتدائی عمر ہی سے تعلیم اور شعری ذوق کے نقوش دل میں ثبت کیے۔ ان کے والد شاہ شمشاد احمد مرحوم کی علمی فضا اور بعد ازاں اساتذہ نصیر کوٹی مرحوم اور اختر علی انجم مرحوم کی رہنمائی نے انہیں نہ صرف ادبی جاذبیت عطا کی بلکہ ایک تحقیقی ذہن بھی دیا۔ یہی سبب ہے کہ شعری آغاز(1999) کے ساتھ ساتھ وہ دینی علوم میں بھی کمال حاصل کرتے چلے گئے۔
انہوں نے پی ایچ ڈی اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ ساتھ تخصص فی الفقہ، ڈی ایچ ایم ایس، فاضل عربی اور ادیب اردو جیسے علوم میں مہارت حاصل کی۔ یوں وہ ایک طرف فقہی بصیرت رکھتے ہیں تو دوسری طرف ادب کے جمالیاتی رویوں کو بھی زندہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالصمد بحیثیتِ اسسٹنٹ پروفیسر اور صدر شعبہ اسلامیات (گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلبہ، نارتھ کراچی) اپنی عملی تدریس میں علم و تحقیق کا وہ توازن پیش کرتے ہیں جو طلبہ کو نصاب سے آگے بڑھ کر تنقیدی و تخلیقی سوچ کی طرف مائل کرتا ہے۔ان کی تحقیقی دلچسپی کا ایک مظہر ایچ ای سی ریکگنائزڈ ریسرچ جرنل المیزان میں بطور سینیئر ایڈوائزر ان کی وابستگی ہے۔ یہاں وہ محض سرپرستی نہیں کرتے بلکہ معیاری تحقیق کے اصولوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کی پی ایچ ڈی تصنیف کنز الصوفیاء اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی تحقیق محض روایتی نہیں بلکہ تنقیدی اور عصری زاویوں سے بھی معمور ہے۔
ادبی سرگرمیاں اور تنظیمی کردار
انجمن بہارِ ادب پاکستان کے نگرانِ اعلیٰ، “ادب بیٹھک” کے بانی و منتظم اور “بزمِ نصیر کوٹی” کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے کئی نئی ادبی جہتوں کو متعارف کرایا۔ یہ انجمنیں محض روایتی محفلیں نہیں بلکہ نئی نسل کو ادب سے قریب کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہیں۔
قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ ان کے کئی تلامذہ محمود حسن تاباں، فہد زئی طور، سمیر کیف، عدنان زائر اور وفا جہانگیری، آج شعری و ادبی منظرنامے پر نمایاں ہیں، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر نور سہارن پوری نے علم و ادب کی امانت کو آگے بڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
شعری کائنات موضوعات و اسلوب
ڈاکٹر نور سہارن پوری کی شاعری ایک طرف روایتی غزل کے حسن و عشق اور ہجر و وصال کے موضوعات کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف جدید عہد کے تضادات، سماجی انحطاط اور روحانی قدروں کے زوال پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
۱۔عرفانِ ذات اور خودی کی تلاش
“خود کو پہچاننے کی کوشش تھی
ایک دن آئنہ بنا ڈالا”
یہ اشعار صوفیانہ روایت کے تسلسل کی علامت ہیں جہاں “خودی” کی تلاش اصل کائنات کو پہچاننے کا ذریعہ قرار پاتی ہے۔
۲۔ہجر و وصال اور یادوں کا جمال
” تیری یادوں کا اگر مجھ پہ نہ سایہ ہوتا
ہجر کی دھوپ نے شدت سے جلایا ہوتا”
اسی طرح کے کافی اشعار ان کی روایتِ غزل کی داخلیت اور عشق کے کرب کو بیان کرتے ہیں مگر ان میں ایک تازہ لہجہ جھلکتا ہے جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے اور وہ ہے
۳۔اخلاقی و سماجی شعور
“میرے سب بزرگوں نے مجھ کو یہ سکھایا ہے
بے زبان ہوجانا، بد زباں نہیں ہونا”
یہاں شاعر نے اپنی شاعری کو اخلاقی پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا ہے، جو آج کے ادبی منظرنامے میں کم یاب ہے۔
۴۔ عصری رویوں پر طنزیہ نگاہ
“پھر صراحی میں کئی کنکر نظر آنے لگے
پھر کہانی میں کوئی کوا سیانا آگیا”
یہ طنزیہ انداز معاشرتی منافقت اور دھوکے بازی کے رجحانات پر شاعر کی گہری نگاہ کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر نور سہارن پوری کی شاعری روایت اور جدت کے سنگم پر کھڑی ہے۔ ان کے ہاں کلاسیکی غزل کا شکوہ اور نیا لب و لہجہ یکجا نظر آتا ہے۔ ان کے یہاں درد کی لطافت، خیال کی گہرائی اور الفاظ کی سادگی ایک ایسا شعری فضا قائم کرتی ہے جو نہ صرف قاری کو محظوظ کرتی ہے بلکہ فکری طور پر جھنجھوڑتی بھی ہے۔ان کی شاعری میں خاموشی، اپنوں کے دکھ، عشق کے زوال و کمال اور زندگی کی تغیر پذیر کیفیتیں بار بار منعکس ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں فرد کی داخلی کیفیات بھی ملتی ہیں اور اجتماعی درد بھی۔
ڈاکٹر عبدالصمد نور سہارن پوری محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک معلمِ اخلاق، محققِ بصیرت اور نقادِ وقت ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات اردو ادب میں ایک ایسا سنگِ میل ہیں جو آنے والے وقتوں میں بھی قاری اور محقق دونوں کے لیے رہنما ثابت ہوں گی۔ ان کا فن ایک ساتھ جمالیاتی اور فکری پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عہدِ حاضر کی علمی و ادبی دنیا میں ایک روشن چراغ ہیں۔
ان کی غزلوں کے کچھ منتخب(اپنی پسند کے ) قارئین کی نذر کرتا ہوں۔۔۔۔
چند متفرق اشعار
دل پر دستک مت دینا
دل میں ماضی رہتا ہے
لگ رہا ہے فریب کا بازار
بِک رہے ہیں خلوص والے لوگ
عشق میں ڈوب کر فنا ہوجا
ورنہ جینا پڑے گا مرمر کے
ہوں لاکھ رنجشیں اپنا ہی ہوتا ہے اپنا
لگاؤ جتنا بھی ہو غیر غیر ہوتا ہے
بولنا مجھ کو کچھ نہیں آتا
خامشی مجھ کو زہر لگتی ہے
میں نے سب چیزیں بدل ڈالیں مگر
گھر میں خاموشی پرانی رہ گئی
کوئی تِریاق لازمی رکھو
سانپ ہر آستیں میں پلتا ہے
یہ کائنات ہے اک لمحۂ فنا کا سفر
کوئی بھی بات یہاں آخری نہیں ہوتی
وہم تھا یا یقین تھا کوئی
زندگی ڈھونڈتی رہی مجھ کو
میں پرندہ ہوں آسمانوں کا
پر کی صورت ہے شاعری مجھ کو
میں نے سب چیزیں بدل ڈالیں مگر
گھر میں خاموشی پرانی رہ گئی
جستجو تھی ہم نشینی کی مگر
چائے کی بس ایک پیالی رہ گئی
Leave a Reply