Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ڈایناسورس: معدوم شہنشاہوں کی داستان

Articles , Snippets , / Friday, May 23rd, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔

ایک زمانہ تھا جب زمین کی فضا میں پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دیوہیکل جانوروں کی گرج سنائی دیتی تھی۔ جنگلوں میں گونجتی ہوئی آوازیں، قدموں کی دھمک، اور شکار کی دوڑ دھوپ، یہ سب کچھ اس زمین پر ہوتا تھا، جہاں آج ہم بستے ہیں۔ ان مخلوقات کو ہم آج ڈایناسورس کے نام سے جانتے ہیں ، ایک ایسا نام جو ہیبت، جلال، اور فطرت کی بے پناہ قوت کا مظہر ہے۔ مگر افسوس، یہ شاہکارِ قدرت اب محض فوسلز کی صورت میں زیرِ زمین دفن ہیں، یا میوزیم کی خاموش الماریوں میں تاریخ کا نوحہ سناتے نظر آتے ہیں۔
یہ وہ مخلوق تھی جو تقریباً بائیس کروڑ سال پہلے اس نیلے سیارے پر ظہور پذیر ہوئی۔ ان کا عہد زمین کی تاریخ میں “میسوزوئک دور” کہلاتا ہے، جو تین عظیم زمانوں میں تقسیم ہے: ٹریاسک، جوراسک، اور کریٹیشس۔ ان کے سائے آسمان کو چھوتے تھے، ان کے پنجے شکار کی ہڈیاں چیر دیتے، ان کے دانت وحشت کی مثال تھے۔ کچھ اتنے بڑے تھے کہ ایک انسانی بستی ان کے جسم پر چل سکتی، اور کچھ چھوٹے ایسے کہ گویا فاختہ کے برابر۔ زمین، آسمان، پانی ، ہر گوشہ ان کے قدموں تلے تھا۔
ان کا بسیرا صرف ایک خطے میں نہ تھا۔ افریقہ کی تپتی دھرتی سے لے کر ایشیا کی گھنی وادیوں تک، امریکہ کے میدانوں سے لے کر آسٹریلیا کے ساحلوں تک، یہاں تک کہ برفانی انٹارکٹیکا میں بھی ان کے آثار ملے۔ قدرت نے انہیں ہر طرح کی ساخت دی ، کچھ چمگادڑ کی طرح پر رکھتے تھے، کچھ آبی دنیا کے فرماں روا تھے، اور کچھ میدانوں کے شہسوار۔
مگر پھر، تاریخ نے ایک کروٹ لی۔ تقریباً چھ کروڑ ساٹھ لاکھ سال پہلے، ایک لمحہ ایسا آیا جب زندگی کی یہ شکل اچانک نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ زمین پر کہرام مچ گیا، فضا میں اندھیرا چھا گیا، سورج کا اجالا ماند پڑ گیا، پودے سوکھ گئے، اور زنجیرِ حیات ٹوٹ گئی۔ سبب کیا تھا؟ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ایک عظیم شہابیہ خلا کی وسعتوں سے ٹوٹتا ہوا زمین سے جا ٹکرایا۔ اس عظیم دھماکے کا مرکز آج کا میکسیکو کا علاقہ “چکسولوب” سمجھا جاتا ہے، جہاں ایک عمیق گڑھا اس سانحے کی گواہی دیتا ہے۔ اس تصادم سے جو گرد و غبار اٹھا، اس نے زمین کی فضا کو لپیٹ لیا۔ کئی مہینوں تک سورج کی روشنی زمین تک نہ پہنچی، درجہ حرارت گر گیا، سبزہ ختم ہو گیا، اور یوں خوراک کی زنجیر کمزور پڑ گئی۔ پہلے پودے، پھر چرند، اور آخر کار درندے ، سب فنا ہو گئے۔
مگر کیا یہ خاتمہ مکمل تھا؟ کیا فطرت نے ان کی کوئی نشانی باقی نہ رکھی؟ نہیں، کچھ ایسے چھوٹے ڈایناسورس، جو پر رکھتے تھے اور اُڑ سکتے تھے، زندہ بچ گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ڈائیناسورس پرندوں کی صورت اختیار کر گئے، اور آج آسمان میں اڑتے ہوئے ہمیں ان عظیم الشان مخلوقات کی آخری سانسوں کی بازگشت سناتے ہیں۔
ڈایناسورس کا قصہ محض ایک مخلوق کی کہانی نہیں، بلکہ یہ عبرت کی ایک لوح ہے۔ طاقت و جبروت، حجم و ہیبت، سب کچھ لمحوں میں مٹی میں مل سکتا ہے۔ فطرت کی کتاب میں کوئی بھی صفحہ دائمی نہیں۔ جو کل تخت نشین تھا، وہ آج خاک نشین ہے۔ آج کے انسان کو چاہیے کہ اس داستان سے سبق سیکھے، اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرے، نہ کہ اس کے خلاف بغاوت۔
یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ آج بھی زمین کی گہرائیوں سے نئی ہڈیاں، نئی نشانیاں، اور نئی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں۔ سائنس دان ان کے ڈی این اے پر تحقیق کر رہے ہیں، ان کی حرکات، عادات، اور حتیٰ کہ آوازیں دوبارہ تخلیق کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کون جانے، کل کا دن ہمیں کسی نئے انکشاف سے چونکا دے۔ مگر فی الحال، ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈایناسورس کبھی اس زمین کے بادشاہ تھے ، اور آج وہ تاریخ کے افق پر ایک عبرت آموز سایہ بن کر موجود ہیں۔

حوالہ جات:
1. Brusatte, Stephen. The Rise and Fall of the Dinosaurs: A New History of a Lost World. HarperCollins, 2018.
2. Alvarez, Luis W. et al. “Extraterrestrial Cause for the Cretaceous–Tertiary Extinction.” Science, vol. 208, no. 4448, 1980, pp. 1095–1108.
3. National Geographic Society. “Chicxulub Crater: The Asteroid that Changed the World.”
4. BBC Earth. “The Day the Dinosaurs Died.” Documentary, 2017.
5. American Museum of Natural History. “Dinosaurs: Fossils, Evolution and Extinction


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International