مغربی بنگال کلکتہ کے معروف ڈرامہ نگار 74 سالہ بزرگ سید محمد راشد سر زمین کلکتہ اور ڈرامہ کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ادبی محفلوں میں شرکت کر اپنی ادب نوازی کا مظاہرہ پیش کرتے ہیں لگ بھگ تیس برسوں سے ھم ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں برسوں قبل زکریہ اسٹریٹ کے وارڈ نمبر 43 سے کلکتہ کارپوریشن کے انتخاب میں کانگریس کی امیدوارہ شگفتہ پروین کی حمایت میں کئی انتخابی جلسوں کی انھوں نے صدارت کی تھی اور خاکسار خواجہ احمد حسین بحثیت جنرل سیکریڑی مغربی بنگال پردیش کانگریس کمیٹی مقرر خاص ہوتا ، مقبول ڈرامہ نگار خورشید اکرام کی دکان پہ بھی اکثر و بیشتر ہماری ملاقات ہوتی جہاں کلکتہ کے معروف تاریخ داں اور جید عالم دین مولانا اسحاق صاحب بھی موجود ہوتے ،بہت قریب سے محترم راشد صاحب کو دیکھنے کا موقع ملا بہت سنجیدہ صوفی صفت انسان ہیں ان کی اداکاری کے قصے بہتوں سے سن رکھے تھے ایک بار ان کا اسٹیج شو دیکھا تو اس نتیجے پہ پہنچا کہ اگر یہ شخص “ممبئی میں ہوتا تو میر ہو جاتا ” یعنی مشہور اداکاروں میں نام ضرور شامل ہوجاتا ایک بار 1990 میں بمبئ کا رخ بھی کیا قادر خان ، دھرمندر , اوم پوری ،
رشی کپور، سنجۓ دت وغیرہ سے قربت بھی حاصل ہوئی شوٹنگ و ڈبنگ وغیرہ خوب حصہ لیتے اداکاری کا آفر بھی ملا اسی دوران والدہ کی علالت کی خبر موصول ہوئی بنا بنایا سب چھوڑ کر کلکتہ آگئے پھر واپس نہیں گئے والدہ کے انتقال پہ ٹوٹ سے گئے اور برسوں خاموش رہے پھر دوستوں کے اسرار پہ اسٹیج کی دنیا میں واپس آۓ ان کی اداکاری دیکھنے والے تعریف کئے بغیر نہ رہ پاتے میرا ماننا ہے کہ ان کی اداکاری میں دلیپ کمار، قادر خان اور راجکمار کی جھلک دکھائی دیتی ہے یہ میری ذاتی راۓ ہے بہر حال بات نکلے گی تو بہت دور تلک جاۓ گی۔ اتنا تو ہر کوئی ہر شخص کو کہتے ہوۓ سنا ہے کہ آپ نہایت ہی ایماندار ، شریف النفس و خلیق انسان ہیں دوستوں کے دوست ہیں بلا غرض دوستوں کے اخبار میں شائع مضامین و غزلیں اپنا قائم کردہ ایس ایم راشد کی ادبی دنیا و یو ٹیوب میں پڑھتے دکھائی دیتے ہیں گزشتہ دنوں اپنے عزیزچھوٹے بھائی نما دوست ڈراما نگار و اداکار خورشید اکرام کے اعزاز میں شاندار اعزازیہ تقریب کا انعقاد کیا تھا جس میں خصوصی طور پہ بزرگ ڈرامہ نگار کمال احمد، شکیل احمد، ظہیر انور،جیسے معروف ڈراما نگاروں نے شرکت کی تھی اس تقریب میں قمر الدین ملک اور راقم خواجہ احمد حسین بھی شریک تھے بہت خوبصورت شام ” خورشید اکرام کے نام” راشد بھائی نے سجا کر ایک بہترین آرگنائزر ہونے کا ثبوت بھی پیش کیا تیس سالہ تعلقات کے باوجود کبھی گھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا اکثر اسلامیہ ہوٹل میں ہی ھم سب ملتے چاۓ کا دور چلتا ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ملنے ملانے کا سلسلہ لگ بھگ منقطع ہو گیا لیکن گزشتہ 5/ اگست 2024 کو زکریا اسٹریٹ گیا تو منور رانا کے غزل ٹرانسپورٹ میں دوران گفتگو مجھے راشد بھائی کی یاد آئی سنا کہ پاؤں کی تکلیف کی بنا اب باہر کم نکلتے ہیں فون کرکے ملاقات کا اظہار کیا تو خوشی کا اظہار کیا کہا آجائیے مکان کا پتہ تھا مجھے معلوم تھا ،کلکتہ کی قدیم عمارتوں میں ان کی بھی عمارت ہے چوتھی منزل بغیر لفٹ کے چڑھنا آپ محسوس کر سکتے ہیں گویا آج کا آٹھ منزلہ زینہ طۓ کرتے ہوۓ بالائی منزل پہ آخر کار پہنچ ہی گیا کٗل اکاسی زینہ طۓ کیا کھلے آسمان کے نیچے بوسیدہ حویلی نما مکان آگن میں بلیاں اور پرندے بھی دکھے بہت اچھا لگا اچانک راشد صاحب نمودار ہوۓ پرتپاک استقبال کیا اپنے چھوٹے سے بوسیدہ کمرے میں لے گئےجہاں صرف ایک سنگل بیڈ ،ایک کرسی ،ایک چھوٹے سائز کا میز اور ایک ویگ٘ ایک اسکارف کچھ کتابیں یہی ان کا اثاثہ دکھا اسی کمرے سے ” ایس ایم راشد کی ادبی دنیا” کے نام سے پیغام دنیاۓ ادب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں پچھلے دنوں راشد صاحب نے میری ایک غزل اور دو مضامین
“پروفیسر اعزاز افضل اور ارشاد آرزو ” اپنی آواز میں پیش کیا تھا یہ بے لوث سماجی خدمتگار و ڈرامہ نگار بھی پروفیسر دبیر احمد کے مولانا آزاد کالج کے طالب علم رہے بہر حال فلحال جس مکان میں 26نمبر زکریہ اسٹریٹ میں رہتے ہیں یہ ان کے بڑے ابا سید محمد عثمان کا مکان ہے جو مجاہد آزادی ملا محمد جان کے عزیز دوست رہے اور محمد جان اسکول کے استاد بھی، ملا محمد جان سے معمولی اختلاف کے بعد ان کا ساتھ اور اسکول دونوں چھوڑ دیا اور اپنے مکان کے نچلے فلور میں ایک اسکول 1939 میں قائم کیا جسے دنیا آج کلکتہ پریسیڈنسی مسلم ہائی اسکول کے نام سے جانتی ہے برسوں ظہیر انور اس اسکول کے بیڈ ماسٹر رہے اور معروف دانشور سید حسن بھی اس اسکول میں اردو کا چراغ جلاۓ رکھا بانیِ اسکول سید عثمان مسلم لیگ کے قد آور رہنماؤں میں شمار کئیے جاتے تھے آپ کلکتہ کارپوریشن کے کونسلر اور 1946میں میئر بھی رہے اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جناب سید محمد راشد سر زمین کلکتہ کے ایک اعلی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اسی روز دوران گفتگو مجھے ان ساری باتوں کا مجھے علم ہوا، عمر کے آخری پڑاؤ کے باوجود آپ خدمت خلق کو اپنا شیوا سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن میں مقیم خضر پور کے باشندہ بین الاقوامی شہرت یافتہ فہیم اختر اپنے قائم کردہ ادارہ صوفی جمیل میموریل لیٹیریری سوسائٹی کا صدر آپ کو نام زد کیا جس کے سکرٹری معروف شاعر و ادیب اور “بیباک” کے مدیر پرویز اختر ہیں ،رخصت ہونے سے قبل انھوں نے اپنی بہو نگار جمال سے متعارف کرایا جو بذات خود ایک معروف ادیبہ و افسانہ نگار ہیں انھوں نے اپنا پہلا افسانوں کا مجموعہ ” لگاؤ” خاکسار خواجہ احمد حسین کو پیش کیا ۔
راشد صاحب شباہت سے بھی خاندانی دکھتے ہیں ابھی بھی مکمل فٹ ہیں، تھوڑی کمزوری کی بنا عصا اور پوتا فضل کریم کا سہارا لے لیتے ہیں ان کے کمرے میں مغرب کی نماز ادا کی پھر چاۓ پی گئی میرے لیے وہ یاد گار شام تھی لوٹتے وقت نہ جانے کیوں فراق گورکھپوری کا یہ شعر خود کے لیئے ترمیم کے ساتھ پڑھا کہ۔۔
آنے والی نسلیں تم پہ فخر کریں گی ہمعصروں
جب بھی ان کو دھیان آۓ گا تم نے” راشد “کو دیکھا ہے
خواجہ احمد حسین۔ سابق ممبر مغربی بنگال اردو اکاڈمی.. 9831851566
Leave a Reply