rki.news
تحریر عائشہ مظفر
ہم سب کو اپنی روز مرہ زندگی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمین بالکل ساکن ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم زمین کے ساتھ اس کے محور پر تقریباً 460 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ یہی زمین اپنے مدار میں سورج کے گرد بھی گھوم رہی ہے، اور یہ رفتار تقریباً 30 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ یہ اعداد سن کر ہی انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ہم کتنا بڑا سفر کر رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ ہماری زمین اور سورج دونوں مل کر ملکی وے کہکشاں میں موجود ایک عظیم “سپر میسو بلیک ہول” کے گرد بھی حرکت کر رہے ہیں۔ یہ رفتار اتنی زیادہ ہے کہ تقریباً 828,000 کلومیٹر فی گھنٹہ بنتی ہے۔ اس بلیک ہول کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں زمین اور سورج کو 230 ملین سال لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج نے اپنی پوری زندگی میں صرف 16 بار ہی یہ چکر مکمل کیا ہے۔ یہ حقیقت اس کائنات کی وسعت کو ظاہر کرتی ہے، جو انسانی عقل سے ماورا ہے۔
زمین کی حرکات بھی نہایت دلچسپ ہیں۔ زمین ایک وقت میں تین طرح سے حرکت کر رہی ہے۔ پہلی حرکت اپنے محور پر ہے، جس سے دن اور رات پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری حرکت سورج کے گرد ہے، جس سے سال اور موسم بدلتے ہیں۔ تیسری حرکت ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے گرد ہے، جو کائنات میں ہماری اصل پوزیشن کو ظاہر کرتی ہے۔ ان سب حرکات کے باوجود ہم زمین پر سکون اور سکون محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ سب ایک خاص توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
سائنسدانوں نے جدید دور میں یہ انکشاف کیا کہ کائنات میں کوئی بھی شے ساکن نہیں ہے۔ ہر چیز حرکت میں ہے۔ ایٹم کے اندر الیکٹران بھی مسلسل گردش کرتے ہیں، سیارے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں اور کہکشائیں بھی اپنے اپنے راستے پر تیر رہی ہیں۔ اگر کوئی چیز ذرا سا بھی رکے تو باقی کائنات کی موشن اسے تباہ کر دے گی۔ یہ حقیقت آج کی سائنسی کھوج سے سامنے آئی ہے، لیکن قرآن نے اس کو چودہ سو سال پہلے بیان کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء میں فرمایا:
“وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ”
(اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں)۔
یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ کائنات کے خالق کا کلام ہے۔ اُس زمانے میں جب لوگ زمین کو ساکن سمجھتے تھے اور آسمان کو ایک چھت کی مانند دیکھتے تھے، اُس وقت قرآن نے کائناتی حقیقت کو بیان کیا کہ ہر چیز اپنی گردش میں ہے۔ یہ انسانی علم سے بالاتر بات تھی جو صرف اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے۔
ان حقائق کو جان کر انسان اپنے وجود کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ پوری کائنات اربوں کہکشاؤں پر مشتمل ہے اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہماری زمین ایک چھوٹا سا ذرے کی مانند ہے۔ یہ احساس انسان کو عاجزی، شکرگزاری اور اپنے خالق کی پہچان کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ تمام حقائق نہ صرف ہمارے علم کو وسعت دیتے ہیں بلکہ ایمان کو بھی تازہ کرتے ہیں۔ قرآن کی صداقت پر یقین مزید بڑھتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کتاب محض انسانی تخلیق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ یہی حقیقت ہمیں اللہ کی قدرت اور اپنی کمزوری کا احساس دلاتی ہے۔
Leave a Reply