تازہ ترین / Latest
  Tuesday, December 24th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کشمیر ڈائری: پرتشدد احتجاج اور آئینی حقوق

Articles , Snippets , / Sunday, December 1st, 2024

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com

آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ قانونی اور سیاسی صورتحال نے ایک نئی بحث مباحثہ جنم دیا ہے جس میں کشمیری شہریوں کے حقِ احتجاج، نقل و حرکت، اور حقِ کاروبار جیسے بنیادی حقوق کو مرکزِ نگاہ بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے عدالت عالیہ آزاد جموں و کشمیر کے فیصلے نے Peaceful Assembly & Public Ordinance, 2024 کو قانونی طور پر درست اور جائز قرار دیا، لیکن اس کے باوجود بعض عناصر احتجاج کی ایسی شکل کو ترجیح دے رہے ہیں جو عوامی اور نجی املاک کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
عدالت عالیہ کشمیر نے اپنے فیصلے میں قراد دیا ہے کہ Peaceful Assembly & Public Ordinance, 2024 شہریوں کے حقِ احتجاج کو ختم نہیں کرتا بلکہ اسے ایک منظم اور پرامن طریقے سے انجام دینے کا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ یہ قانون احتجاج کے دوران عوامی املاک کی حفاظت اور شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ احتجاج کے پرتشدد اور غیر قانونی طریقوں کا جواز کیا ہے؟
احتجاج جمہوری معاشروں میں شہریوں ایک اہم اور بنیادی حق ہے، لیکن اس حق کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں احتجاج منظم اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جاتا ہے، جہاں نہ تو جان و مال کا نقصان ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کی روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر میں احتجاج کے نام پر جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی روش نہ صرف غیر جمہوری ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی مجروح کرتی ہے۔
پرتشدد احتجاج کا سب سے زیادہ اثر تاجر برادری، ٹرانسپورٹرز، اور عام شہریوں پر پڑتا ہے۔ بازاروں کی بندش، ٹرانسپورٹ کی معطلی، اور خوف و ہراس کی فضا معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ریاست کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
احتجاج کو اگر قانون کے دائرے میں نہ رکھا جائے تو اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ قانون شکنی کا راستہ اپنانے والے افراد اور گروہوں کو جلد یا بدیر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایسے رویے دشمن عناصر کے ایجنڈے کو تقویت دیتے ہیں، جو ملک میں انتشار پھیلانے کے درپے رہتے ہیں۔
احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی پرامن اور منظم شکل اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عوامی مسائل کے حل کے لیے مکالمہ، مشاورت، اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد وہ راستے ہیں جو جمہوری اصولوں کے مطابق ہیں اور معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پرتشدد احتجاج ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جو نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتا ہے بلکہ ریاستی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ Peaceful Assembly & Public Ordinance, 2024 ایک ایسا قانونی فریم ورک مہیا کرتا ہے جو شہریوں کے حقوق اور ریاست کی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور خاص طور پر نوجوان نسل احتجاج کے حق کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کریں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں تاکہ ایک مضبوط اور پرامن معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International