Today ePaper
Rahbar e Kisan International

{(کل پاکستان کے مشاعرے کے بعد ایک مشاعرہ روہڑی)

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Monday, April 21st, 2025

rki.news

(“نازش حیدری اور ہم… استادی، شاگردی، گلاب جامنوں کی مٹھاس تک)۔
(ہمارا ترانہ، داد یا بے داد۔۔فیصلہ آپ کا}

سکہر کے کل پاکستان مشاعرے کے بعد، روہڑی میں روز نامہ جنگ کے نمائندے معروف مزاح گو جناب بیربل جبلپوری کی سربراہی میں تمام شعراء نے دوسرے دن روہڑی کا رخ کیا۔ ہم بھی اپنے والد حضرت ناطق بدایونی کے ہمراہ خوشی خوشی شریکِ سفر تھے۔
روہڑی کے ایک ناسکول میں مشاعرے کا انتظام تھا۔ مشاعرے سے قبل جناب بیربل جبلپوری کی قیام گاہ پر دوپہر کے کھانے کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا۔ اچانک جناب نازش حیدری نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے والد صاحب سے پوچھا۔۔، ” ناطق صاحب یہ صاحبزادے کس کے شاگرد ہیں، کل اچھا کلام پیش کیا۔ والد صاحب نے کہا ابھی تو کسی کے بھی نہیں۔ آپ اپنی شاگردی میں لینا پسند فرمائیں تو کیا بات ہے۔ نازش حیدری صاحب نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ہم سے ہماری بیاض طلب کی۔ پہلے ہی صفحے پر جو غزل نظر آئی اس کے ایک دو مصرعوں کو قلم زد کرتے ہوئے اصلاح فرمائی۔ اسی دوران بیربل جبلپوری صاحب نے مٹھائی منگوالی تھی۔ مبارک سلامت کے شور میں گلاب جامنوں پر دعا کی گئی اور ہمارے استادِ محترم نے اپنے دستِ مبارک سے حیرت سے کھلے ہمارے منہ میں وہ گلاب جامن رکھ دی۔ یہ سب کچھ اتنا فوری ہوا کہ ہمیں سوچنے سمجھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ (برسوں بعد یہی سب کچھ ہمارا رشتہ طے ہوتے وقت بھی ہوا)۔

مبارک سلامت کے شور میں مشاعرہ گاہ سے بلاوہ آنے پر سب اٹھ کھڑے ہوئے۔
جتنی دیر میں گلاب جامن ہمارے منہ سے حلق میں منتقل ہوئی اتنی ہی دیر تک یہ “استادی شاگردی” کا تعلق رہا۔ اس کے بعد نہ شاگرد نے کبھی استاد سے رجوع کیا نہ استاد نے سلسلہء جنبانی کی اصطلاح کا بھرم رکھا۔
پہلے تو ہم والد صاحب کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے لیکن اس دن جناب نازش حیدری سے بھی دوقدم پیچھے تھے۔ ۔
حدِ ادب کا تقاضہ بھی یہی تھا۔
مشاعرے میں ہم نے اپنا سکہر والا ہی کلام پڑھا ۔ وہی ہوا جس کا ہمیں اندیشہ تھا۔ ہمارے پڑھنے کے ساتھ ساتھ طلباء اپنی اپنی ڈیسک پر تھاپ دے رہے تھے۔ یا تالیوں کی گونج ایک آھنگ کے ساتھ سنائی دے رہی تھی۔ موسیقی کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی لیکن اس روز یہ اندازہ ہوگیا کہ سکہر میں بھی ہمیں “ہوٹ” نہیں کیا جارہا تھا۔ بہتر فیصلہ آپ درجِ ذیل ترانہ پڑھ کر کرسکیں گے:

” ترانہ”

بج رہا ہے سازِ جنگ
اب کسے قرار ہے
دامنِ سکون و ضبط
آج تار تار ہے
انقلاب لائے جا!
آ قدم ملائے جا !

خود ہو اپنا راہبر
ہر قدم ہو تیز تر
آسماں پہ رکھ نظر
ہے ظفر بھی ہمسفر
خشک و تر پہ چھائے جا!
آ قدم ملائے جا!
منزلیں ہوں دور تر
را سنتے ہوں پُر خطر
کٹ گئے ہوں بال وہ پر
معجزے دکھائے جا!
آ قدم ملائے جا!
ہر طرف ہے روشنی
ظلمتیں ہوئی ہیں کم
آفتابِ صبحِ نو
لے رہا ہے اب جنم
کارواں بڑھائے جا!
آ قدم ملائے جا!
ہر نظر ہے ضوفشاں
زیست پر نکھار ہے
ہر طرف ہیں زمزمے
آمدِ بہار ہے
جشنِ نو منائے جا!
آ قدم ملائے جا! (1965)جاری ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International