تازہ ترین / Latest
  Friday, December 27th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کھانا تجھ کو نہ بنانا آیا

Articles , Snippets , / Tuesday, November 5th, 2024

کاشی ایک چھ سالہ پیاری سی گول مٹول سی بچی تھی جس کے پھولے پھولے گالوں پہ دو چٹیاں جھولتی ہویں بہت پیاری لگتی تھیں، وہ دادکوں، نانکوں دونوں طرف کی لاڈلی تھی اپنی جماعت کی ذہین ترین بچی ریلوے کالونی کے ایک محل نما گھر میں اپنے انجینئر باپ اور سگھڑ ماں اریبا کے ساتھ ٹوکرا بھر نوکروں کی سنگت میں کسی بادشاہ زادی کی طرح بڑے ٹھاٹ سے رہتی تھی اسے اپنی نیلے کنچوں جیسے آنکھوں والی دھان پان سی ماں اریبہ اپنی نفاست اور سگھڑاپے دونوں کی وجہ سے بے حد پسند تھی لیکن اس دن جب اسے مالی بابا سکول سے وآپس گھر تک لے آیا اور کاشی نے گھر کی دہلیز پار کر کے کھانے کے کمرے میں پاوں رکھے تو سچ میں اس کا سر چکرا کے رہ گیا اس نے جو دیکھا کاش وہ نہ دیکھتی کاش کچھ لمحوں کا فرق پڑ جاتا وہ سکول سے نکلنے میں دیری کر دیتی یا پھر اپنی جیب میں پڑے ہوے دس روپے کے نوٹ سے ٹھنڈے میٹھے اور رنگ برنگے گولے گنڈے لے کر موج اڑا لیتی یا پھر گول گپے کھا کے وقت کے ظالم دھاروں کے خوفناک بہاو سے اپنے آپ کو بچا لیتی یا پھر مس نصرت سے دونی کا پہاڑہ سمجھنے میں تھوڑا سمے کو اور ٹپا دیتی مگر نہ جی وہ کہتے ہیں ناں کہ وقت جو زخم لگانے کے درپے ہو جاے وہ کوئی مای کا لال روک نہیں سکتا اور ایسا ہی ایک گھاو ظالم وقت ننھی کاشی کے ننھے سے دل پہ لگانے کے لیے تیار بیٹھا تھا جونہی کاشی نے ڈایینگ روم میں قدم رکھے چینی کی سالن سے بھری ہوی پلیٹ ہوا میں لہراتی ہوی آی سالن پورے کمرے، ڈایینگ ٹیبل، کرسیوں، برتنوں، دیواروں، دیواروں پہ سجی ہوی پینٹنگز اور سب سے بڑھکر اریبہ ماں کی کنچی نیلی آنکھوں میں اپنی ظلم و بربریت کے نقش ثبت کرتا ہوی چپس کے فرش پہ گر کے چور چور ہو کے آخری سانسیں لے گءی مگر مت پوچھیے ننھی کاشی کے کانوں میں اپنے پڑھے لکھے انتہائی اونچی پوسٹ پہ فایز باپ کے انتہائی زہریلے الفاظ نے جو زہر انڈیلا پھر کسی کویل کے نغمے یا پیہو کی مدھر آواز اس زہر کا تریاق نہ بن سکی اور کاشی اس زہر اس کٹیلے جملے کی لپیٹ میں اتنی زیادہ دبی رہی کہ تا حیات اسے مردوں سے شدید نفرت ہی رہی کیا کہا تھا اس کے باپ نے اس کی انتہائی سندر اور سگھڑ ماں سے کہ ایک چھ سالہ معصوم بچی کا ایمان ہی انسانیت اور انسانوں سے اٹھ گیا تھا یہ تھے وہ زہریلے الفاظ جو کاشی کے باپ نے اس کی ماں اریبہ سے کہے تھے اور ساتھ ہی اس کے محنت سے پکاے ہوے کھانے کو ہوا میں اچھال کر اپنی مردانگی پہ اپنی خباثت کی مہر بھی ثبت کر دی تھی.
تمہاری ماں نے تمہیں کھانا بھی بنانا نہیں سکھایا نہ کھانے میں ذایقہ. نہ خوشبو، ابا کی زبان مزید گولے داغ رہی تھی لیکن کاشی سے اپنی ماں کا زخمی چہرہ اور آنسوؤں میں ڈوبی ہوی کنچی، نیلی آنکھیں دیکھی نہ جاتی تھیں اس چھ سالہ بچی کو بھی اتنی سمجھ تو تھی کہ اس کی ماں انتہائی نفیس، سلجھی ہوی سگھڑ خاتون تھی جس کے ہاتھ کے ذایقے کی دھوم پورے خاندان میں تھی. پر شاید یہ مردانہ فطرت کا ایک خاص طرہ امتیاز ہے کہ اسے اپنی بیوی بھلے ہر فن مولا بھی ہو پھر بھی عیبوں سے بھری ہوئی ہی دکھای دیتی ہے سیانوں کی کہاوتیں مذاق ہی مذاق میں صفحات پہ نہیں لکھی گییں بلکہ یہ صدیوں کی ریاضت کے تجربات کا نچوڑ ہیں. کہ بیوی بیگانی اور بچے اپنے ہی اچھے. اور زیادہ تر مردوں کے معاملے میں یہ بات پورے طور صادق آتی ہے. آپ جس بھی مرد سے پوچھیں گے وہ کہے کہ قسم سے میری بیوی کو تو کھانا بنانا آتا ہی نہیں کھانا تو میری ماں بناتی تھی ایسا لذیذ اور خوشبو دار کہ ہمساے اس کھانے کے خوشبو پہ دیوانہ وار ہمارے گھر کی طرف کھنچے چلے آتے تھے. سچ ہے ماں جو کھانا بناتی ہے اس میں مامتا کی محبت کا ذایقہ کھانے کو مزید مزیدار بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے.
ماں کی الفت
ماں کی الفت ہویدا ہوتی تھی
ماں کے کھانوں میں
سارے کاموں میں
وہ ماتھا چوم کے خوش ہوتی تھی
کھلا کے بچوں کو بھوکی سوتی تھی
ماں سے پیارا کوی دوسرا رشتہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہو سکتا ہے اور اچھی ماییں ہی اپنی اولاد کی اچھی تربیت کر کے اسے اس ظالم دنیا میں انسانوں کی طرح رہنے کے رنگ ڈھنگ سکھا کے دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں. اور دنیاوی بحرانوں سے نبٹنے کا آسان سا تیر بہدف نسخہ یہی ہے کہ عزت کرو اور عزت کرواو ارے عزت تو اپنے ملازم کی بھی نہ کرو تو وہ بھی آپ کو زک پہنچانے کا کوی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گا اور مجھے اچھی خالہ کی سنای ہوی چڑیا اور کوے کی یہ کہانی نہیں بھولتی کہ چڑیا اور کوے نے مل کے کھچڑی بنانے کا سوچا چڑیا لای چاول کا دانہ اور کوا لایا دال کا دانہ چڑیا کھچڑی بنا کے چھپ گءی کوا وآپس آ کے خالی برتن دیکھ کے پریشان ہوا چڑیا چکی میں چھپی ہوی تھی کوے نے غصے سے چکی گھمای چڑیا درد سے بلبلا اٹھی اوہ میری دم پھنس گءی کوے نے برجستہ کہا پراے کھانے کھا کے یہی سزا ملتی ہے
تو محبت ہی محبت کا تریاق ہے
میں محبت کی مار ہوں پگلے
اک البیلی نار ہوں پگلے
مجھ سے تو بے وجہ الجھتا ہے
قصہ مختصر یہ کہ کسی بھی گھر کے امن سکون کے لیے میاں بیوی کا باہمی سمجھوتہ اور تعاون بہت ضروری ہے وہ مرد بڑے قابل ہوتے ہیں جو اپنی بیویوں کے ادب احترام کا حد سے زیادہ خیال رکھتے ہیں وہی دین و دنیا کی کامیابیوں کے حقدار ہیں. لہٰذا اپنے گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے پرای عورتوں کے تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے بچوں کی ماں کی تعریف کریں اس کے عیوب کی پردہ داری کریں اگر وہ بدذایقہ کھانا بھی پکا کے آپ کے سامنے رکھ دے تو صبر کر کے کھا لیں اگر اچھا بولنے سے قاصر ہیں تو برا بولنے سے بھی گریز کریں.
اپنے اوپر رحم کریں اپنے بچوں پر رحم کریں اپنے بچوں کی ماں پر رحم کریں لوگوں کی بیٹیوں پر رحم کریں جو اپنی نازونعم میں پلی ہوی بیٹیاں نکاح کے بندھن میں بندھ جانے پہ آپ مردوں کے حوالے کر دیتے ہیں رحم کریں تاکہ کل اس سب سے بڑے بادشاہ کی عدالت میں آپ پہ بھی رحم کیا جا سکے.
مولانا الطاف حسین حالی کے اس شعر کے ساتھ اجازت کہ
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدامہرباں ہو گا عرش بریں پر
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International