کیا تیسری عالمی جنگ عظیم کے خطرے کو ٹال دیا گیا ہے؟امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےکہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ عظیم کو ٹال دیا گیا ہے۔ٹرمپ نے دعوی کرتے ہوئے کہا کہ اگر کملاہیرس کامیاب ہو جاتیں تو ایک سال کے اندر تیسری بڑی عالمی جنگ شروع ہو سکتی تھی۔ٹرمپ کے مطابق مشرق وسطی اور یوکرین میں جاری کشیدگی کے باعث تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔دنیا بھر میں جنگوں کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے ٹرمپ نے اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ وہ معصوم جانوں کو ضائع ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ دنیا بھر میں جنگ بندی،تنازعات کو حل کرنے اور کرہ ارض کوامن کی جانب راغب کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہوں کیونکہ میں امن کی خواہش رکھتا ہوں۔تیسری جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا اور ہم اس کے قریب ہیں۔اگر بائیڈن انتظامیہ مزید ایک سال تک اقتدار میں رہتی تو شاید ہم تیسری جنگ عظیم میں داخل ہو جاتے۔امریکی صدر روس اور یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس بات کا امکان بڑھ چکا ہے کہ عنقریب یوکرین جنگ کا خاتمہ ہونے والا ہے۔مشرق وسطی کے حالات بہت ہی بگڑے ہوئے ہیں اور بہتری نہ آنے کی صورت میں تیسری جنگ عظیم شروع ہو سکتی ہے۔غزہ میں بھی ابھی تک امن نہیں آسکااور اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ انتشار پھیل جائے۔مشرق وسطی میں ایران موجود ہےاور تہران واشنگٹن کے تعلقات بہتر نہیں۔اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بقول ٹرمپ جنگ کے خطرے کو ٹال دیا گیا ہے،تو کیا مستقبل میں بھی شروع نہیں ہوگی؟کچھ طاقتوں کو امریکہ کنٹرول نہیں کر سکتا،اگر وہ جنگ کی طرف بڑھنا شروع ہو جائیں تو واشنگٹن کا رد عمل کیا ہوگا؟اسرائیل بھی بارہا اس عزم کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ سرحدوں کو توسیع دے گا اور گریٹر اسرائیل کا نقشہ بھی شیئر کرچکا ہے۔اس نقشےسے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل آگے کی طرف دیکھ رہا ہے۔اسرائیل اگر دوسرے علاقوں کی طرف بڑھتا ہےتو لازمی بات ہے کہ مزاحمت ہوگی اور یہ مزاحمت تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔روس بھی دیگر علاقوں کی طرف رخ کر سکتا ہے۔کسی یورپی ملک کی طرف رخ کرنا،یورپی یونین کی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔رد عمل کے طور پر بڑی طاقتیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں گی۔تیسری جنگ عظیم کو اگر روکنا ہےتو کچھ طاقتوں کو بطورطاقت بھی روکنا ہوگا۔
اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا تیسری جنگ عظیم صرف مشرق وسطی ہی میں چھڑے گی یا کوئی اور خطہ بھی اس کا میدان ثابت ہو سکتا ہے؟مشرق وسطی میں اگر امن آجاتا ہےتو دیگرعلاقوں میں بھی تنازعات موجود ہیں۔ان تنازعات کو کس طرح حل کیا جا سکے گا؟مثال کے طور پر تائیوان بھی تیسری جنگ عظیم کی وجہ بن سکتا ہے۔چین کا دعوی ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہےاور اس کو قبضہ میں لینے کی کوشش کرتا رہا ہےاور چین کی کوشش جاری بھی ہیں،اس مسئلے پر بھی تیسری جنگ عظیم شروع ہو سکتی ہے۔تیسری جنگ عظیم اس وجہ سے بھی تائیوان کے مسئلے پر شروع ہوسکتی ہے جب امریکہ یا کوئی اور ریاست تائیوان سے مفاد حاصل کرنا شروع کر دے۔چین اگر تائیوان پر قبضہ کرنے کے لیےکوئی سرگرمی دکھاتا ہے تو امریکہ یا کسی اورریاست کی طرف سے تائیوان کی مدد کی جاسکتی ہے۔تائیوان محل وقوع کے لحاظ سےبہترین پوزیشن پر ہےاور یہ بہتر پوزیشن کئی ممالک کے مفادات کو پورا کر سکتی ہے۔چین اور امریکہ کے درمیان تائیوان کے مسئلے پرتعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔علاوہ ازیں کئی دوسرے علاقے بھی کئی قسم کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔مسئلہ کشمیر بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان گمبھیر صورتحال اختیار کر چکا ہے۔دونوں ممالک اس مسئلے پرجنگ بھی لڑ سکتے ہیں اور دونوں ریاستیں کےپاس جوہری توانائی موجود ہے،یہ جنگ جوہری جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔برصغیرپاک و ہند میں لڑی جانے والی جنگ کا دائرہ دوسرے ممالک تک پھیل سکتا ہےاور یوں تیسری عالمی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔پاکستان اورانڈیا کےدرمیان دریاؤں کا پانی بھی وجہ جنگ بن سکتا ہے،کیونکہ دریاؤں کی وجہ سےپاک انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔دیگر مخالفتیں بھی ان دو ایٹمی ریاستوں کو جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔عالمی برادری کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی تاکہ یہ ایٹمی قوت کی مالک ریاستیں آپس میں الجھ نہ جائیں۔حال ہی میں انڈیا اور امریکہ کے درمیان کچھ فوجی نوعیت کے معاہدے ہوئے ہیں اور یہ معاہدےپاکستان اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہےاور واضح احتجاج بھی کر چکا ہے،اسلحے کے ذخائر جنگ کاماحول بنا سکتے ہیں۔اسی طرح کئی ممالک کے آپس میں اختلافات اور تنازعات ہیں،یہی تنازعات اور اختلافات تیسری جنگ عظیم شروع کروا سکتے ہیں۔
تیسری جنگ عظیم اگر شروع بھی ہو گئی تو یہ بہت سی انسانی آبادی کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سبب بنے گی۔جدید اسلحے کا استعمال بہت ہی کم وقت میں زیادہ تباہی مچانے کا سبب بنے گا۔اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایٹمی توانائی کا استعمال بھی ہو جائے،تو کتنی تباہی ہوگی اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔دنیا پہلے دو بڑی جنگوں کو دیکھ چکی ہے،جس کی وجہ سےہر بار بہت بڑی تباہی مچی۔اس وقت آبادی بھی کم تھی اور اسلحہ بھی موجودہ دور کے اسلحہ کے مقابلے میں جدید نہیں تھا،پھر بھی دنیا کو تباہی دیکھنا پڑی۔اب آبادی بہت ہی بڑھ چکی ہےاورجدید اسلحہ بھی موجود ہے،جنگ کی صورت میں اربوں انسانوں کی اموات ہو سکتی ہیں۔صرف انسانوں کی اموات نہیں ہوں گی بلکہ جانوروں کی بھی اموات ہوں گی۔زمین کا کافی حصہ تباہ ہو جائے گا اوررہائشی عمارتیں بھی ملبے کا ڈھیر بن جائیں گی۔وسیع تباہی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تیسری جنگ عظیم شروع نہ ہو۔تیسری جنگ عظیم میں کمزور ممالک اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔تیسری جنگ عظیم کے لیےحالات سازگار ہو رہے ہیں،لیکن اس جنگ کو روکا بھی جا سکتا ہے۔عالمی برادری تنازعات کوحل کرنے کی کوشش کرے۔جنگ ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا،مذاکرات کے ذریعے بھی بہت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔تیسری جنگ عظیم شروع ہو کر جب ختم ہوگی تو زمین پر بہت ہی کم انسان بچے ہوں گےاور ان بچے ہوئےانسانوں کی زیادہ تعداد دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کے قابل نہیں ہوگی۔تیسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعدبچنے والے انسان بہت بڑی تباہی دیکھیں گے۔امن کے لیےہر ایک کو کوششیں کرنی چاہیے،خصوصا بڑی طاقتیں امن بحالی کے لیےخصوصی اقدامات اٹھائیں۔
Leave a Reply