rki.news
کیوں پٹاتے ہو ان غریبوں کو
کیوں پٹاتے ہو ان غریبوں کو
پاپی دنیا کے بد نصیبوں کو
ہم لوگ کتنے ظالم ہیں، ہم نے اپنے چہروں پہ کتنے لیپ چڑھا رکھے ہیں، ہم جو اصل میں ہوتے ہیں وہ نہ دوسروں کو نظر آنا چاہتے ہیں اور سچ تو یہ بھی ہے کہ نہ ہی دوسرے ہمیں ہمارے اصل چہرے کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں.
الکھ نگری
کءی چہروں کے لیپ کر ڈالے
میں نے اپنے اس ایک چہرے پہ
تیری یادوں کی الک نگری کو
اپنے چہرےسے مٹانے کے لیے
خود کو ہنستا ہوا
مسرور دکھانے کے لیے
رستے ہوے زخموں کو
دنیا سے چھپانے کے لیے
بیوٹی پارلرز کی گڈی چڑھنے کے ساتھ ساتھ اب Aesthetic marketکے ششکے اور کشکے بھی
اب ساری دنیا کے سامنے ہی ہیں. اس کا مطلب ہے کہ ہم تمام لوگ حسن پسند ہیں، ہمیں حسین چہرے، حسین گھروندے، حسین لباس، حسین ماحول ہی اچھے لگتے ہیں، اسی لیے تو تمام دنیا کے لوگ دنیا کو حسین ترین بنانے کے لیے صبح سے شام اور پھر رات سے صبح تک محنت، محنت اور صرف محنت کے مجرد نسخے پہ عمل پیرا رہتے ہیں. مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ہم حسن پرستی کے خبط میں بری طرح سے مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ لالچ اور کینہ پروری کے عذاب میں بھی بری طرح مبتلا ہیں، ہم ہر شے مل بانٹ کے کھانے کی بجائے اکیلے ہی کھانے کے رسیا ہیں. بھلے اتنا کچھ کھاتے کھاتے ہم بیمار ہو جائیں لیکن مل بانٹ کے کھانا ہمیں کچھ خاص پسند نہیں ہے اسی طرح دنیاوی اثاثہ جات پہ مل مارنے میں بھی ہم سب ہی ماہر ہیں ہاں موقع ملنے کی دیر ہے، موقع ملتے ہی ہم انی مچا دینے کے فن میں بھی خوب طاق ہیں اور ہماری، آپ کی بلکہ دنیا کے تمام لوگوں کی اس غیر منصفانہ ادا نے انسانوں کو پستی کی ان گہرائیوں میں لا پھینکا ہے کہ سچی میں اب تو اپنے آپ کو انسان کہتے ہوئے بھی دکھ ہی ہوتا ہے، اور اس نفسانفسی اورانتہاے لالچ نے سچ میں انسانیت کے پرخچے ہی اڑا دیے ہیں، دنیا کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو گءی جو لوگ چالاک، مکار اور اپنے الفاظ میں عقل مند تھے انہوں نے دنیاوی وسائل پر غیر محسوس طریقے سے قبضہ کر کے دنیا کے شریف، معصوم اور بدھو لوگوں کو یرغمال بنا کے کام میں، کولہو کے بیل کی طرح جوت دیا،ہاں کولہو کے بیل کو کھانے پینے کا اتنا آسرا ضرور کر دیا کہ وہ زندہ بھی رہے اور ہوشیار لوگوں کا بغیر اجرت کے کام بھی کرتا رہے، یہ ظلم برداشت کرتے کرتے آخر کار یکم مءی 1886 کا دن آ جاتا ہے جب شگاکو میں ان پسے ہوے، محروم زمانہ انسانوں کے اندر کا انصاف پسند انسان جاگ کے اپنے حقوق کا تقاضا کرتا ہے تو عیار اور غیر منصفانہ رویوں کے حامل مافیا کو یہ بات لگتی تو بہت بری ہے مگر دنیا دکھانے کو مزدوروں کے حقوق مان لیے جاتے ہیں اور یکم مءی کو یوم مزدوراں کے نام سے مختص کر دیا جاتا ہے، لیکن سچ تو یہی ہے کہ ایک سو انتالیس سال گزرنے کے بعد بھی دنیا کی سیاست ویسے ہی الٹی سیدھی چل رہی ہے، چالاک انسان سرمایہ دارانہ نظام پر حاوی ہیں اور مزدور طبقہ ابھی بھی روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور رہایش کے عذابوں میں شدت سے گرفتار ہے. ساتھ ساتھ مزدوروں کی زندگیاں آج بھی قابل رحم ہیں over time لگا کر بھی وہ، خود ہی بھوکے نہیں رہتے ان کے ساتھ ان کے بچے بھی بھوکے سو جاتے ہیں. بس یوم مءی مناتے رہیے نام مزدوروں کا ہو گا اور کھابے کھاتے رہیں گے سرمایہ دار، مگر مزدوروں کے مسائل پورے دھوم دھڑکے کے ساتھ ویسے ہی موجود رہیں گے. اور ہم ادیب، شاعر لوگ آس، امید کے دیے صرف اپنے کلام میں جلا کر یوم مزدوراں مناتے رہیں گے.
یوم مزدوراں
یہ روایت ظلم ختم ہونے والی ہے
شام ڈھلنے والی ہے، سحر ہونے والی ہے
کیوں پٹاتے ہو ان غریبوں کو
اہل دنیا کے بد نصیبوں کو
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Naureen drpunnamnayreen@gmail.com
Leave a Reply