Today ePaper
Rahbar e Kisan International

گزشتہ سے پیوستہ {دسوں انگلیوں کے بیچ سے ابھرتا ہوا سر۔ بلی سے شیر۔ تھپڑ اور لپّڑ۔}

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Wednesday, April 9th, 2025

rki.news

رات کا وقت ، حد نظر تک چھائی تاریکی اور اپنی تنہائی کا احساس کچھ زیادہ ہی خوفزدہ کر رہا تھا ۔ چولہے میں جلتی ہوئی آگ اور چائے کے پانی کی ہلکی ہلکی سنسناہٹ ماحول کو بھی آسیب زدہ بنا رہی تھی۔
امتحان میں چند ہی روز رہ گئے تھے اس وجہ سے ہم آدھی آدھی رات تک پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس وقت بھی جب کہ تمام لوگ سردی کے موسم میں لحافوں اور رضائیوں میں دبکے بے خبر سور ہے تھے ہم آدھی رات کو اپنی نیند دور کرنے کے لیے کمرے سے نکل کر باورچی خانے میں چائے کی تیاری میں مصروف تھے۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھے مگر نجانے کیوں ہم اس رات کچھ زیادہ ہی خوفزدہ تھے۔ کبھی کسی کی سرگوشیاں سنائی دیتیں تو کبھی قدموں کی چاپ ۔ ہم اب اتنے بھی ڈرپوک نہیں تھے کہ بلی کی میاؤں سن کر بھاگ کھڑے ہوتے سو ہم نے ان سب غیر معمولی باتوں کو اپنا واہمہ سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا اور جلدی جلدی چائے تیار کر کے اپنے کمرے کا رخ کیا ابھی ہم صحن ہی میں پہنچے تھے کہ کسی کھٹکے پر ہماری نظریں برابر کے زیر تعمیر مکان کی درمیانی دیوار پر پڑیں۔ خوف کی ایک تیز لہر ہماری ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہوئی پیروں کو منجمد کر گئی۔ لرزتے ہاتھوں سے ہم نے چائے کی ٹرے زمین پر رکھی اور لرزتے قدموں ابا کے کمرے کا رخ کیا۔ابا کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے ہم نے مڑ کر دیوار کی طرف نظر کی دسوں انگلیوں کے بیچ کسی کا ابھرتا ہوا سر ۔ یہ سب دیکھ کر ہماری گھگی بند گئی اور ہم نے کانپتے قدموں گھر کے اندرونی کمرے کی طرف دوڑ لگادی جہاں ہمارے ابا حضور استراحت فرمارہے تھے۔ ویسے تو کبھی ہم ان کے کمرے میں بغیر اجازت نہیں جاتے تھے۔ کمرے میں پہنچ کر بڑی مشکل سے ہم نے حلق پھاڑ کر ابا جان ابا جان کا فلک شگاف نعرہ لگایا لیکن یہ ہماری خام خیالی تھی ہمارے منہ سے بہت بار یک لرزتی کانپتی آواز نکل رہی تھی۔ ابا جان ان ان ن ، ابا جان ن ن ن ۔ جب اس صدائے بے اثر نے رنگ نہ دکھایا تو ہم نے لحاف کا کونہ کھینچنا شروع کر دیا۔ ابا جان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ رات کے اس وقت ہمیں دیکھ کر پریشان ہو کر زور سے بولے کیا بات ہے؟ جوابا” ہم نے نہایت نحیف آواز میں کہا۔۔وہ ادھر دیوار پر انگلیاں، سر ۔۔ اب ابا جان کو بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہو چلا تھا۔ زور سے بولے کیا “سر کٹا” کیسی انگلیاں۔ اس کے ساتھ ہی جلدی سے بستر چھوڑ ، سیر کرنے کی چھڑی اٹھا ، ننگے پاؤں باہر کی طرف دوڑے۔ ہم بھی ایک ہاتھ میں ان کی چپلیں لیے پیچھے پیچھے تھے۔ صحن میں جا کر شاید ایک لمحے کے لیے وہ بھی کانپ گئے ہوں گے۔ چور کا سر دیوار سے طلوع ہور ہا تھا۔ اچانک ابا کو اپنے ابا ہونے کا احساس ہو گیا۔ زور زور سے اپنی چھڑی سے دیوار پر ضربیں لگاتے ہوئے چور چور کی صدائیں بلند کرنا شروع کر دیں ۔ ابا سرکٹا ، بھوت پریت کے قائل نہ تھے۔ چور صاحب اس فوری حملے کے لیے تیار نہ تھے۔ دوسری طرف دھپ کی زور دار آواز عالیجناب چور کے خلا سے واپس زمین کی طرف تشریف لانے کا اعلان کر رہی تھی ۔ جیسے ہی دوسری طرف کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اباجان نے بھی اپنے دروازے کی طرف دوڑ لگائی۔ ہم اتنے میں ماسی کی جھاڑو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اپنے دفاع اور چور کی سرکوبی کے لیے تیار ہو چکے تھے۔
ابا جان نے اپنی چھڑی سنبھال کر دروازہ کھولا تو چور ٹھیک ان کے سامنے تھا جس کا چہره ابا جان کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا جان نے بد تمیز، نالائق کہتے ہوئے ایک زور دار چھڑی چور کے رسید کی ۔ ہم بھلا کیوں پیچھے رہتے، ابا جان کی موجودگی میں بلی سے شیر بن چکے تھے۔ ہم نے ابھی جھاڑو دونوں ہاتھوں میں کسی پہلوان کے گرز کی طرح تھام کر ابا جان کے پیچھے سے یا علی کا نعرہ لگایا ہی تھا کہ ابا جان کے ایک زور دار تھپڑ نے ہماری ساری ترکی تمام کردی ۔
” کمبخت رات کو بھی چین لینے نہیں دیتے” ابا جان نے یہ کہتے ہوئے اپنے کمرے کا رخ کیا۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ تھپڑ چور نے مارا تھا یا ابا جان نے اور یہ کیسا چور ہے جسے
ابا جان چھوڑ کر چل دیے کہ ایک زور دار لپڑ ہمارے منہ پر پڑا۔ ہمارے منجھلے بھائی نہایت خشمگیں نگاہوں سے ہمیں گھور رہے تھے بس نہ تھا جو کچا ہی چبا جائیں۔
اب ساری بات ہماری سمجھ میں آگئی تھی۔ منجھلے بھائی کمبائینڈ اسٹیڈی کی غرض سے دوست کے گھر گئے تھے، زیادہ دیر ہوگئی تو ڈانٹ کے ڈر سے دروازے کی گھنٹی بجانے کی بجائے برابر کے زیر تعمیر گھر کی دیوار سے گھر کے صحن میں کودنے کا منصوبہ بنایا۔ منصوبہ تو بڑا شاندار تھا مگر برا ہو ہماری آدھی رات کو اٹھ کر پڑھنے کی عادت کا۔۔ ویسے ایک راز کی بات بتائیں، چند ماہ پہلے تک سب بڑے بھیا اور ہم ایک ہی کمرے میں ہوتے تھے، لیکن اس آدھی رات کو اٹھنے کی عادت نے دوسرے دن ہی کمرے سے نکلوادیا۔ کچھ دن بعد بڑے بھیا کے دوسرے شہر تبادلے نے بلا شرکت غیرے ہمیں کمرے کا مالک بنا دیا یہ اور بات بڑے بھیا بھی دوسرے شہر جاتے جاتے ایک عدد زور دار چانٹے سے نواز گئے تھے۔۔ اب آپ خود بتائیے ان دونوں معاملات میں ہمارا بھلا کیا قصور ۔۔۔۔۔ جی کیا کہا، آدھی رات کو اٹھنے کی عادت؟ ہاں جی وہ ابھی بھی برقرار ہے، افسوس کوئی ڈانٹنے ڈپٹنے والا نہیں۔ رہیں بیگم اور بچے، تو وہ بیچارے برداشت کر لیتے ہیں۔ (جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International