اب آپ مجھ سے لازماً پوچھیں گے کہ یہ گلناز کون ہے ارے یہ گلناز نامی بھوت میرے اور آپ کے ساتھ ہی نہیں ہر بھلے مانس، ہر شریف النفس کے ساتھ ساتھ چپکا رہتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ گلناز نامی بھوت ہمارے آپ جیسے شریف النفس انسانوں کو کھوجتا رہتا ہے. اور جب یہ ہم اور آپ تک پہنچ جاتا ہے توپھر ہماری اور آپ کی آخری سانسوں تک کسی بھوت کی طرح ہمارے جسم، روح اور دل پر ایسے قبضہ کرتا ہے کہ نہ ہی تھوکتے بنتی ہے اور نہ نگلتے
تو قصہ کچھ یوں ہے کہ مہرین الہی ایک سات سالہ بچی جو دوسری جماعت کی طالبہ تھی حساب کے پیریڈ میں پہاڑوں کا ٹسٹ دے کر جونہی کینٹین میں پونہچی، پندرہ سالہ موٹی تازی سانڈ کی طرح پلی ہوی گلناز نے مہرین الہی پہ ہلہ بول دیا مطالبہ وہی دو سالہ پرانا کہ مہرین اپنا پرانا قرض چکا دو، ، مہرین جو صبح سے پڑھ پڑھ کر ہلکان ہو چکی تھی کچھ کھانے کے لیے کینٹین آی تھی مگر کہتے ہیں ناں کہ کچھ خواہشیں صرف خواہشیں ہی ہوتی ہیں وہ تعبیروں کے ہنڈولے پہ چڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہیں تو ایسا ہی کچھ بھولی بھالی مہرین کے ساتھ متواتر پچھلے دو سال سے یہ گلناز نامی ڈریکولا کیے جا رہا تھا مہرین الہی پاکٹ منی کے نام پر جو کچھ بھی لاتی گلناز نامی چڑیل وہ سب مہرین سے قرض کی مد میں چھین لیتی تھی اور قرض کی مقدار بجاے کم ہونے کے بڑھتی ہی جاتی تھی. اس دن مہرین انتہائی زچ ہو کے مس نعمت کے پاس چلی گءی اور انھیں تمام ماجرا کہہ سنایا.
مس نعمت کو تو سکول کے احاطے میں ایک سات سالہ بچی کے ساتھ ہونے والے اس فراڈ پہ اتنا غصہ آیا کہ انھوں نے گلناز کو سکول ہی سے نکلوا دیا اور اس طرح معصوم مہرین کی جان اس حرافہ گلناز سے چھوٹ گءی کہ مس نعمت اس کی نجات دہندہ بن کے آ گیں. دنیا میں جا بجا پھیلے ہوے بھتہ بازاوراغوا کار کیا اسی جتھہ گلناز کے پیرو کار نہیں ہیں. ڈی سی صاحب نے لوٹ مار کے پروگرام کے لیے اپنی بیگم صاحبہ کو پاور آف اٹارنی دے رکھا تھا اور وہ دونوں ہاتھوں سے جی بھر کے لوٹ مار میں مصروف تھیں. روپے پیسے دے کر سرکاری نوکریاں ہتھیانے والے بھی سرکاری سیٹوں پر بیٹھ کر جو غنڈہ گردی کرتے ہیں اسے تو نوک قلم پہ لاتے ہوے بھی دل دہل جاتا ہے اور اس لوٹ مار، اغوا بازی، چوری ڈاکے اور بھتہ فروشی میں ہمارے اپنے جاننے والے ہمارے اپنے رشتہ دار ہی اصل میں گلنازہوتے ہیں. انسان کی فطرت میں اتنی مطلب پرستی اور کھوٹ ہے کہ شکر کیجئے اللہ پاک نے سبکے پردے خوب رکھے ہوے ہیں اور ہمارے عیوب پہ مالک کی مہربانیوں کا احسان ہے ورنہ ہم سب اتنے مکروہ اور بد شکل ہیں کہ نہ ایکدوسرے کو دیکھ سکیں اور نہ سن سکیں. مسز نین کو کسی طرح سے لوگوں کو باہر بھیجنے کا تیر بہدف نسخہ ہاتھ لگ چکا تھا بس ان کی تو ہو گءی نہ چاندی ان کا تو مانو سر کڑاہی میں اور انگلییاں گھی میں تھیں ہاں جب ان کے بھیجے ہوے ایک سو پینتیس پاکستانی غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرتے ہوے کشتی میں ڈوب گیے تو انھیں بھی دن میں تارے نظر آ گیے جب انھیں حوالات کی ہوا کھانی پڑی.
یہ پٹواری سے لیکر ہاری اور ہاری سے لیکر عسم شہری تک تمام اسی گلناز سسٹم کے فعال رکن. ہی نہیں فعال مہرے بھی ہیں. پرچوں میں چیٹنگ سے لے کر انعامات کے حقداراروں تک ہر شے پہلے ہی سے بک چکی ہوتی ہے ہاں آپ غور فرمائیے گا کہ ان چپے چپے پہ پھیلی ہوی ان جونک نما گلنازوں سے ہم نے اور آپ نے کیسے بچنا ہے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply