تازہ ترین / Latest
  Monday, December 23rd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

گندم سیزن اور کاشتکاروں

Green Pakistan - گرین پاکستان , / Tuesday, April 16th, 2024

یہ بات تو مسلمہ ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں حکومت کی ناقص زرعی پالیساں کاشت کاروں کو لے ڈوبی ہیں۔ کاشت کار حلقوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ گندم سیزن 2024 نے کاشت کاروں کو معاشی بدحالی کا شکار کر کے رکھ دیا ہے۔ آئیے ہم گندم کے بحران کے ذمہ داران کے حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کسانوں کے خون پسینے سے اگائی جانے والے گندم مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ نئی فصل کے آتے ہیں گندم کی قیمت 3500 روپئے من تک گر گئی ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ اپریل کے آخر تک گندم کی کھلوانوں میں قیمت 3000 روپئے تک گر جائے گی۔ گندم کے بحران کے عوامل کیا ہیں۔ گندم کے بحران کی بنیادی وجہ ستمبر 2023 میں پرائیویٹ سیکٹر کو دی جانے درآمد کی اجازت ہے۔ کاکڑ حکومت نے بتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی اور اس بات کا ذرا احساس نہیں کیا کہ اس کے کسانوں پر اور ملک پر کیا تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک طرف تو ایک ارب ڈالر کا کثیر زر مبادلہ گندم کی درآمد پر ضائع کیا گیا۔ دوسری طرف ملک میں گندم کا سیلاب لاکر گندم کی مارکیٹ کریش کر دی۔ ہمارا ملک ایک ایک ڈالر کے لیے منتیں کر رہا ہے اور دوسری طرف ایک ارب ڈالر اڑا دیے گئے۔ اس کا کس مافیا نے فائدہ اٹھایا اور کس کس حکومتی اہلکار نے اربوں روپئے کمائے اس کا ذکر آخر میں ہو گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ محکمہ ہائے خوراک اور پاسکو کے پاس تقریبا 35 لاکھ میٹرک ٹن کے قریب گندم ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ گندم کیوں درآمد کی گئی۔ اور خاص طور پر فروری میں جب یہ علم ہو گیا تھا کہ پاسکو اور محکمہ ہائے خوراک کے گندم کے ذخائر فروخت نہیں ہو پارہے توکس نے گندم کی درآمد نہیں رکوائی۔ کسانوں کو درپیش طوفان کے حوالے سے ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں اس سال ایک کروڑ چہتر لاکھ ایکڑ رقبہ پر گندم کاشت کی گئی۔ جس سے دو سو پچیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار متوقع ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب اس دفعہ صرف بیس لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گا۔ کیونکہ اس کے پاس تقریبا 23 لاکھ میٹرک ٹن کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس سال کسانوں کی اپنی ضروریات، بیج اور فلور ملوں کی طرف سے خریداری کے بعد اور محکمہ خوراک اور پاسکو کے ٹارگٹ کے بعد بھی تقریبا 50 لاکھ میٹرک ٹن گندم بچ جائے گی. اس گندم کو خریدنے والا کوئی نہیں ہوگا اور گندم کا ریٹ 3000 روپے فی من سے بھی نیچے گرنے کے شدید خدشات ہیں۔ کسانوں کی پیداواری لاگت اور نقصان کے حوالے سے اگر کل لاگت ٹھیکہ سمیت اور چالیس من کی اوسط پیداوار لگائی جائے تو کسان کو فی ایکڑ پچاس ہزار کا نقصان ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس لوٹ مار کے حصہ داران کون کون ہیں۔ چونکہ گندم کی مارکیٹ پرائس تین ہزار روپیہ تک رہے گی تو فلور ملز مالکان انتہائی سستی گندم خرید کر سٹاک کریں گے۔ حکومت نے فلور ملوں کو دی جانے والی گندم کی قیمت 4700 روپئے فی من مقرر کر رکھی ہے۔ چنانچہ فلور ملز 3000 روپئے من کے حساب سے گندم لے کر4700 روپئے پلس اپنا منافع ڈال کر 5500 روپئے میں فی من عام شہری کو آٹا فراہم کریں گی۔ اور بے تحاشا منافع کمائیں گی۔ کسانوں کے معاشی نقصان اور اس لوٹ مار کے حصہ داران میں فلور ملز مالکان،ECC میں شامل وزراء اور افسران، وزارت تجارت، فوڈ سیکیورٹی حکام، براہ راست شامل ہیں۔ جب تک ملک میں جامع زرعی پالیسی نہیں بنائی جاتی،یہ حالات ایسے ھی رہیں گے۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں حکومت کی ناقص زرعی پالیساں کاشت کاروں کو لے ڈوبی ہیں۔ کاشت کار حلقوں اور ان کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ گندم سیزن 2024 نے کاشت کاروں کو معاشی بدحالی کا شکار کر کے رکھ دیا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International