لَب کُھلیں کہ نہ کُھلیں
جب تلک بھی ممکن ہو
کوئی بات کرنے کی چاہتیں تو رہتی ہیں
چاہے دل کے دامن میں
صرف ایک دھڑکن ہو
دِل کی بات کہنے کی خواہشیں تو رہتی ہیں
زندگی کے ہونے تک
آنکھ بند ہونے تک
منتظر نگاہوں میں حسرتیں تو رہتی ہیں
خامُشی کی وحشت میں
جانے والے قدموں کی آہٹیں تو رہتی ہیں
جل بُجھے چراغوں میں
روشنی کے مرنے پر
ماتمی اجالوں تک حدَّتیں تو رہتی ہیں
پیار ایک رستہ ہے
عشق ایک منزل ہے
منزلوں کی چاہ میں مُسافتیں تو رہتی ہیں
راستے کہیں بھی ہوں
راستے کوئی بھی ہوں
راستوں کے دامن میں اُلجھنیں تو رہتی ہیں
راستوں پہ چلنے میں مُشکلیں تو رہتی ہیں
تم کہیں رہو جانم
سانس کی رفاقت میں
ایک بار ملنے کی کاوشیں تو رہتی ہیں
ہاتھ کی لکیروں میں
کم نصیب لمحوں کی سازشیں تو رہتی ہیں
شاعری کی نگری میں
لفظ اور معانی تو آئنوں کی مانند ہیں
آئینوں کے جُھرمٹ میں مَہوِشیں تو رہتی ہیں
دُلہنیں تو رہتی ہیں!
رَبْط ٹوٹ جانے پر
کوئی رُوٹھ جانے پر
ساتھ چُھوٹ جانے پر
ہاتھ کی لکیروں سے رَنجشیں تو رہتی ہیں۔
سلیم کاوش
15 اگست 2024
Leave a Reply