گلشن اختر میؤ
ننکانہ صاحب
میرے جواں چہرے کی شادابی کا غمگین ہونا
میرئ پلکوں کی جھلروں میں اٹکے ہوئے آنسوؤں
میرا غمزادہ الم لہجہ…..
میری اشک شوئی کی مانند اونچے قہقے..
کسی ہجرے الفت میں نئی
کسی فراق وصل کا اظہار نہیں…
کسی شخص کی وعدہ خلافی پر نئی…
ہاں مجھے دکھ ہے….
اس بیمار باپ کا…. جس نے طویل عمر کا سرمایہ بیٹے کی مکتب گری میں لگایا ہو..
جب اس بیٹے کو نوکری نا ملے تو موت کو گلے لگا لیا….
ہاں مجھے دکھ ہے….
ان رشتوں کا جس نے تقدس کو پامال کیا ہو..
ہاں مجھے دکھ ہے اس ماں کا…
جسکی آنکھ جواں اولاد کی موت میں ختم ہو چکی ہو
میرے لفظوں کی زباں میں جو سسکیاں ہیں نا…
یہ…. اس شہر حجرے محب کی ہیں
جیسے کسی کی بد نظر نے جلا کر راکھ کر دیا ہو..
ہاں مجھے دکھ ہے…
اس باپ کی پگڑی کا… جسکا مان بیٹی نے چند روز کی محبت میں دفن کر دیا ہو..
ہاں مجھے دکھ ہے…
اپنی قوم کی ذہینی افلاس کا….
ہاں مجھے دکھ ہے……
اس محب کا…. جسکی ریاضتوں کو
چند عوض میں فرموش کیا ہو…
ہاں مجھے دکھ ہے…
آپنے حسن مجسم پیکر کا…..
جیسے دیمک کی مانند غربت نے کھایا ہو..
ہاں مجھے دکھ ہے…
اس بھائی کا…
جو دنیا کی رسموں کو نبھانے کے لئے
اپنا پچپن کو مٹا چکا ہو…
ہاں مجھے دکھ ہے…
اپنی ماں کا… جسکا لاڈلہ بیٹا آخری لمحوں میں ملنے آئے تو اسے یوسف کے بھائیوں کی مانند مار دیا جائے
ہاں مجھے دکھ ہے…
اے شہری بابو… تو کیا جانے..
مجھ بکری چرانے والی سادہ لوح لڑکی کا دکھ
تیرا اور میرا دکھ بہت الگ الگ سے ہیں..
لیکن ہم دونوں کا ہی خدا ایک ہے…
Leave a Reply