Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ہم کردار کے غازی کب بنیں گے

Articles , Snippets , / Thursday, July 3rd, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظالم کا ساتھ دو گے تو پھر اتنا بتاؤ
یہ سنت حسین ادا کس طرح ہو گی
حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنے 72 جانثاروں کے ساتھ کربلا کی زمین پر موجود ہیں۔ آپ ( رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے سامنے ایک آسان راستہ تو یہ ہے کہ ظالم کی بیعت کر کے اپنی اور اپنے رفقاء کی جان بچالیں۔ اس کے انعام میں دنیا اور اس دنیا کی تمام نعمتیں آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دی جائیں گی، لیکن پھر دین اسلام کی سربلندی کا کیا ہو گا ؟ ظالم کے سامنے حق کہنے کی جرآت کا سبق امت کو کون سکھائے گا؟ باطل سے ٹکرانے کا حوصلہ امت میں کیسے پیدا ہو گا؟ سیاہ شب میں صبح کے اجالے کی امید کیسے باندھی جا سکے گی؟ کیا اس راستے کو منتخب کرتے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امت کی طرف سے باطل کی اطاعت قبول نہیں کر لی جائے گی؟۔ حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اُس وقت اپنے لشکر کی طرف نہیں دیکھا، بلکہ سر اٹھا کر صرف اور صرف اپنے رب کی طرف دیکھا۔ اپنے دل میں موجود ربِ دو جہاں پر کامل یقین کی طرف دیکھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ‘جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ تمہاری طرح زندہ ہیں مگر تم ادراک نہیں رکھتے ‘، تو شہید کب مرتے ہیں ان کو تو اللہ امر کر دیتا ہے۔ اس بات پر یقینِ کامل حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے میدان کربلا میں امت مسلمہ کو عملی طور پر کر کے دکھایا کہ اللہ کا وعدہ حق ہے ۔حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) تا قیامت رہتی دنیا تک کے لئے امر ہو گئے ہیں، اور ہمیں یہ سبق بھی سکھا گئے ہیں کہ لشکر کی تعداد پر نہیں، ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھو، پھر نتیجہ کچھ بھی ہو تمہیں تمہاری نیت کا وہ اجر ملے گا جو تمہارے تصور سے بھی بالا ہے۔ یہ روزِ روشن کی طرح کا ہی ایک سچ ہے۔ جس راہ پر حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے امت کو چل کر دکھایا وہ اللہ کی منتخب کردہ راہ ہے ۔ وہ راہ جس کی دعا امت ہمیشہ مانگتی ہے کہ اے اللہ ہمیں اپنی منتخب کردہ راہ پر چلا۔ امت آج تک حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی شجاعت ،بہادری ،جوانمردی کی داستان نسل در نسل منتقل کرتی چلی آ رہی ہے، تاکہ راہ حق پر چلنے کا یہ سبق ہمیشہ ہماری نسلوں میں زندہ رہے، اور امت مستقبل میں ایسے کسی بھی موقع پر حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے باطل کے سامنے بلا کسی خوف و خطر سینہ تان کر سیسہ پلائی دیوار کی طرح جم کر کھڑی ہو جائے ۔
لیکن ہمیں یہ سبق یاد تو ہے، ہم دہراتے بھی ہیں۔ اپنی نسلوں کو اس سے آگاہ بھی کرتے ہیں، لیکن کیا ہم اس پر عمل پیرا بھی ہیں؟
کیا باطل کے سامنے کلمہ حق کہنے کا جذبہ ہم میں واقعی موجود ہے؟ کیا سنتِ حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) ادا کرنے کا حوصلہ ہم واقعی رکھتے ہیں؟ ہر سال محرم الحرام ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں، اور سوچیں کہ اگر ہم پر ایسا ہی وقت آ جائے تو کیا ہم حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی طرح ثابت قدم رہ سکیں گے؟ کیا باطل سے اس یقین کیساتھ ٹکرا جائیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حق نہیں؟ اور اس بات سے روگردانی کرنا اللہ کی نافرمانی کے سوا اور کچھ نہیں؟۔ کیا ہم اس دنیا کو اللہ کے لئے تیاگ سکتے ہیں؟ کیا ہم دنیا کو اتنا ہی حقیر سمجھتے ہیں جتنا میدانِ کربلا میں حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور 72 جانثاروں نے سمجھا تھا ؟ اگر ان سوالات کے جوابات اس جذبے جیسے ہاں میں نہیں ہیں، جس جذبے نے کربلا کے ایک خیمے میں بجھے چراغ کے باوجود کسی جانثار کو میدان چھوڑ کر جانے نہیں دیا تو پھر سوچیں کیا صرف ان کی یاد منانا ہی قربانیء حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی سچی عکاسی کر سکتی ہے؟ کیا ہم ان کا ذکر کرتے ہوئے شرمندگی کا احساس دل میں موجود نہیں پاتے کہ جس بات پر آپ نے دنیا کو ٹھوکر مار دی، اس بات کو بھلا کر ہم دنیا کے عیش و آرام کمانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
ہمیں روز مرہ کے معاملات میں ہر جگہ جس طرح باطل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیا ہم اس کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا خوف کے چھوٹے چھوٹے بت جو ہم نے دل کے نہاں خانے میں سجائے ہوئے ہیں ان کو سنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہوئے توڑنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ کیا دنیا کی جھوٹی لذتوں کو شیطان سمجھ کر خود سے دور کرنے کی کیفیت جذبہ ایمانی کی طرح ہمارے رگ و پے میں دوڑ رہی ہے؟ کیا پوری دنیا میں اپنے مسلمان بھائیوں پر ہوتا ظلم دیکھ کر ہمارا خون جوش مارتا ہے؟ یا سب کچھ صرفِ نظر کر کے اور نہایت پرسکون رہ کر دنیا کی آسائشوں اور رنگینیوں میں مصروف رہتا ہے؟ جھانکئیے اپنے گریبان میں جھانکئیے اور فیصلہ کیجئیے کیا حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی قربانی چند دن کی یاد منانے کے لئے تھی یا امت کو ہمیشہ کے لئے جگانے کے لئے تھی؟ اگر امت پہلے ہی کی طرح سو رہی ہے ۔ باطل کے در پر کاسہ لیسی کر رہی ہے۔ ظالم کے ڈر سے خاموش ہے۔ دنیا کمانے کی خواہش میں مگن ہے، تو پھر کیا ہمارے آنسو جو حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی یاد میں آنکھیں نم رکھتے ہیں وہ سچائی پر چلنے کی دعا کے ہی آنسو ہیں؟
معاشرہ اگر جاگ نہیں رہا۔ ہم ایک امت بن کر سوچ نہیں رہے۔ باطل کا خوف دلوں سے نکل نہیں رہا، تو یہ چند دن کا گریہ ہمیں روزِ قیامت اللہ کے رسول اور حضرت حسین (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے سامنے شرمندہ ہی کروائے گا ۔ کیا نبی کریم( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کا سامنا کرنا امت کے لئے اتنا ہی آسان ہو گا۔ کیا حضرت علی (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) و حضرت فاطمہ (رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے سوالات کے جوابات دینا ممکن ہوں گے؟ کیا کربلا کے میدان کی ریت حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور 72 جانثاروں کے خون سے اس لئے لال ہوئی تھی کہ ہم عیش و آرام میں ڈوب کر سب قربانیاں بھول جائیں؟
فلسفہ شہادتِ حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) پر جب تک عمل پیرا ہو کر ہم باطل کے خاتمہ اور حق کی فتح کے لئے عملی جدوجہد کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے ، تب تک صرف زبان سے ادا کئے گئے الفاظ باطل کی پریشانی کا سبب نہیں بن سکتے۔ باطل اس پر خوش ہے کہ گفتار کے غازی کبھی کردار کے غازی نہ بن سکیں، تاکہ باطل یونہی پھلتا پھولتا رہے۔ سو ہمیں خود سے یہ عہد باندھنا ہو گا کہ اگر ہم سچے عاشقِ حضرت حسین(رَضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہیں تو اس جدوجہد کی روح پر صدقِ دل سے عمل کریں گے جس کے لئے کربلا رہنما ہے ۔
خرد نے کہہ بھی ديا ‘لاالہ’ تو کيا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہيں تو کچھ بھی نہيں


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International