ہم گُنَہگار ہیں، بَرگزِیدہ نہیں!
ہم تو زیرِ زمیں ساری مخلُوق کا،
سارے حَشرات کا رِزْق بن جائیں گے
جب بھی مَر جائیں گے۔
یہ جو آنکھیں،
تماشائے اہلِ ستم پر بھی نَم نہ ہوئیں
یہ زَبانیں،
جو مظلُوم و مَعتُوب کے حق میں کُھل نہ سکیں
اَور دَست و ہُنَر ،
جو کبھی تِیر و تیغ و سناں یا قَلَم سے بھی محرُوم تھے
گوشِ شَنْوا،
جو نَوحہ سَراؤں سے بھی لا تَعَلُّق رہے،
بے حسی کے تَعَفُّن میں زندہ رہے
مَر گئے ہم تو یہ سب ہی بے کار ہیں
رِزقِ حشرات ہیں
ہم وہ بے حِس ہیں جو ۔۔
قُوّتِ باصِرہ، سامِعہ، ناطِقہ کے سَزا وار ٹھہرے، مگر بے ثَمَر!
ہم عطاؤں کی توہین کے مُرتَکِب!
کیوں نہ مَرنے سے پہلے یہ سب نعمتیں
ہم کِسی مُستَحَق کو وَدِیعَت کریں
جو شُعُورِ بصارَت کا حامِل بنے
جو دِلوں میں دبی آہ کو سُن سکے
جس کا دَستِ ہُنر
قوم کے درد کی داستاں کو رَقم کر سکے، سُن سکے!
آؤ کچھ کَر چلیں
ہم زمیں پر مِلی نعمتیں اِس زمیں پر
زمیں زاد کے نام ہی کَر چلیں
ہم گُنَہگار ہیں!
بَر گزِیدہ نہیں ہیں کہ زیرِ زمیں
خاک پر فَرْض ہو، وہ ہمارے بَدَن کی حفاظت کرے!
سلیم کاوش
Leave a Reply