Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ہیں تلخ بندہ مزدورکےاوقات

Articles , Snippets , / Thursday, May 1st, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmai.gmail.com
ہیں تلخ بندہ مزدورکےاوقات
یکم مئی کوعالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے.مغربی دنیا نےمزدورکو حقوق ایک دو صدیاں قبل دینا شروع کیے ہیں۔مزدور سے زیادتیاں اب بھی ہو رہی ہیں اور مزدور کی زندگی ابھی بھی تلخ ہے.مزدور کا مسئلہ اب کا نہیں بلکہ صدیوں سے چلا رہا ہے۔اسلام سے قبل بھی مزدوروں سے زیادتیاں ہوتی رہی ہیں.غلاموں کو شدید مشقت کرنی پڑتی تھی اور بدلے میں ان کو معمولی سی غذا ملتی تھی.فرعون کے دور میں بھی بنی اسرائیل کو غلام بنایاگیا تھا.بنی اسرائیل پر فرعون اور اس کی انتظامیہ کی طرف سےبے پناہ ظلم کیے جاتے تھے.غلاموں کےکوئی حقوق نہیں تھے۔اسلام نے مزدوروں کو حقوق دیے اور ساتھ ہی محنت مشقت سے کماکرکھانے کا بھی حکم دیا۔جس طرح آج کل کے معاشرے میں ہاتھ سے کمانے والے کومعاشرہ عزت نہیں دیتا,اسی طرح صدیوں قبل بھی معاشرہ مزدور کو عزت نہیں دیتا تھا.اسلام نے مزدور کو اتنی عزت دی کہ حدیث میں ہے”سب سے پاکیزہ عمل یہ ہے ک آدمی خود اپنے ہاتھوں سے کمائے”(شعب الایمان۔للبیہقی۔1128)اسلام میں مزدور کواہم اورمعززمقام حاصل ہےاور دوسرے پیشوں سے اس کی حیثیت کم نہیں ہے.ہاتھ سے اگر حلال کمایا جائے تواس کا یہ عمل بہترین گرداناجائے گا.حدیث میں ہے،”حضرت موسی علیہ السلام نے 10 سال تک حضرت شعیب علیہ السلام کی مزدوری کی”(ابن ماجہ)اسلام محنت کرنے کی تلقین کرتاہے بجائے اس کے کہ بھیک مانگ کرپیٹ پالا جائے.حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے،”سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہیں ہوگی”(بخاری)ایک حدیث کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مزدور کے ہاتھ کو بوسہ دے دیا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مزدور کا بہت ہی بلند مقام ہے.مزدور کی محنت دوسروں کی زندگی آسان بناتی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مزدوروں کووہ مقام نہیں مل رہااور نہ پورا معاوضہ ملتا ہے جس سے وہ پرآسائش زندگی گزار سکیں یا مناسب زندگی گزارنے کا ان کو موقع ملے۔
جدید دنیا میں مزدوروں کوحقوق دینے کا احساس ڈیڑھ دو صدی قبل ہوا ہے.یوم مئی جن مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے,وہ 1886 میں مزدوروں پر چلائی گئی گولی کی یاد میں منایا جاتا ہے.1886 تک مزدور 18،18 گھنٹے کام کرتا تھا،لیکن صلے میں اس کومعمولی سا معاوضہ ملتا جو اتنا ہوتا کہ وہ اپنی جان کا رشتہ قائم رکھ سکےاور وہ مزید مزدوری کرکےسرمایہ کارکاپیٹ بھرے.مزدوروں کو احساس ہوا کہ اس زیادتی کے خلاف اٹھنا چاہیے.شکاگو میں مزدوروں نے آواز بلند کرنا شروع کر دی،سرمایہ کاروں کو یہ ناگوار گزرا.سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں نے پولیس کے ذریعے ان پر قابو پانے کی کوشش کی مگر مزدوروں نے احتجاج شروع کر دیا.پولیس نے مزدوروں کو گولی کا نشانہ بنایا,جس میں کئی مزدور جان کی بازی ہار گئے اور بے شمار زخمی ہوئے.اس کے باوجود مزدوروں نےاپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھی,جس کی وجہ سے ان کا مزدوری کا دورانیہ آٹھ گھنٹے رکھا گیا,ساتھ چھٹی اور بہتر معاوضے کا بھی اعلان کیا گیا۔مغرب کےکافی ممالک میں مزدور کو مناسب معاوضہ کے ساتھ عزت بھی دی جاتی ہے.ابھی تک ترقی پذیر ممالک میں وہ مقام مزدور کو نہیں دیا جاتا جس کا وہ حقدار ہےاور نامناسب معاوضہ دیا جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزار سکے.برصغیرپاک وہند میں مزدور سخت قسم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.ان کو وہ حقوق نہیں ملتے جو اسلام نے ان کو عطا کیے ہیں یا جدید مغربی دنیا مزدور کے حقوق تسلیم کرتی ہے.مکانات اور عمارتیں بنانے والےمزدور بیچارے معمولی سے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور بعض توکرایہ کے مکانوں میں رہتے ہیں.کسان جو محنت کرتا ہے,اس کا پھل بھی دوسرے کھاتے ہیں لیکن کسان کو اتنااجر نہیں ملتا جس کا وہ حقدار ہے.فیکٹریوں میں کام کرنے والامزدور طبقہ خوشحالی سے کوسوں دور ہے۔صرف فیکٹریوں میں کام کرنے والےمزدور تلخ زندگی گزارنے پر مجبور نہیں ہیں بلکہ کان کنی کا شعبہ اس سے بھی زیادہ تلخی لیے ہوئے ہے۔مزدور میلوں لمبی کانوں میں کام کرتے ہیں.یہ کوئلے کی مائینز بھی ہوتی ہیں اور دوسری معدنیات کی بھی،درجہ حرارت کو نظر انداز کیے مزدور سخت قسم کی محنت کرتے ہیں اور ان کوبھی مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔معاوضے کے علاوہ دوسرے حقوق بھی نہیں ملتے.نہ تو ان کو میڈیکلی سہولیات دستیاب ہیں اور نہ کوئی دوسری سہولیات ان کو ملتی ہیں.مزدور اپنے بچوں کو تعلیم تک بھی دلانے سے قاصر ہوتے ہیں.فوت ہونے کی صورت میں ان کو کہیں معمولی سا معاوضہ مل جاتا ہے اور کہیں وہ بھی نہیں ملتا.معذور ہونے والے مزدوروں کو بھی ذلت آمیززندگی گزارنی پڑتی ہے.مزدور چاہے فیکٹریوں میں کام کرے یا مائنز میں,مکانات تعمیر کرےیا دوسرے شبعہ جات میں محنت کرے،اس کی زندگی تلخیوں سے بھری ہوتی ہے۔
بعض جگہوں پرمزدور کو مشقت زیادہ کرنا پڑتی ہے,اتنی مشقت جو اس کی ہمت سے زیادہ ہوتی ہے.اسلام نےحکم دیا ہے”غلاموں سےاتنا کام نہ لو جو ان کی طاقت اور قدرت سے باہر ہو”(موطا)مزدور سے اتنا کام کروانا جو اس کی ہمت اور طاقت سے زیادہ ہو ،منع کیا گیا ہے.ایک حدیث کے مطابق مزدور کو اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے۔(ابن ماجہ)فوری مزدوری ادا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ وہ بروقت اپنی ضروریات کو پورا کر سکے۔مزدوری بھی پوری دینی چاہیے,بلکہ اگر انعام کی صورت میں زیادہ معاوضہ دیا جائے تو اخلاقی طور پر یہ ایک بہترین عمل ہوگا.مزدوروں کو بھی چاہیے کہ اپنا کام ایمانداری سے کریں.ایمانداری سے کام نہ کرنے والا بھی اسلامی اور اخلاقی طور پرخیانت کر رہا ہوتا ہے.بعض فیکٹریوں میں یہ شکایات آتی رہتی ہیں کہ فیکٹری مالکان کومزدور تنظیمیں ناجائز تنگ کر رہی ہوتی ہیں.ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے.آجر اور اجیردونوں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے تاکہ معاشرے میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا نہ ہو جائے.,
مزدوروں کی تنظیمیں اپنےجائز حقوق کے لیے قائم ہونی چاہیے.اگر کوئی سرمایہ کار مزدور کو حق نہ دے تو اس کے خلاف احتجاج کرنا مزدور کا بنیادی حق ہے.سرمایہ کارسےمکمل طور پرسرمایہ چھیننا، یہ بھی زیادتی ہے.مزدوروں کی تنظیمیں بعض اوقات اپنے حقوق کے لیے لڑی بھی ہیں.کارل مارکس کی جدوجہد مزدوروں کے لیے تھی اور لینن جو روسی انقلاب کا بانی تھا،اس نے بھی جدوجہد کر کےمزدوروں کو حقوق دلائے.کارل مارکس کی اپنی زندگی مشکلات سے پر تھی،مگرسرمایہ دارانہ نظام کے جبرسےپر نظام سے تاحیات نبروآزما رہا۔کہاجاسکتاہے کہ روسی انقلاب مزدوروں کے حقوق کی وجہ سےآیا۔روسی انقلاب کے بعد خامیاں بھی ظاہر ہوئیں۔نظام ایسا ہونا چاہیے جس سے سرمایہ کار بھی فائدہ اٹھائے اور مزدور کو بھی پورے حقوق ملیں.مزدوروں کو حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے.مزدور جب تک خود اپنے حق کے لیے نہیں لڑے گا اس کو حقوق ملنا مشکل ہے.موجودہ دور میں مزدور کی زندگی شدید مشکلات میں گزر رہی ہے.اس کی زندگی کی تلخی بہت بڑھ چکی ہے.اختتام عللامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ،
“تو قادروعادل ہےمگر تیرے جہاں میں،
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات”


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International