rki.news
(تحریر: احسن انصاری)
یومِ مئی جسے عالمی یومِ محنت یا مئی ڈے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہر سال یکم مئی کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن تمام شعبہ ہائے زندگی میں محنت کشوں کی قربانیوں اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد محنت کی عظمت کو تسلیم کرنا، مزدوروں کے ساتھ منصفانہ سلوک، مناسب اجرت، اور محفوظ کام کے ماحول کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یومِ مئی نہ صرف محنت کشوں کو خراجِ تحسین ہے بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے عملی اقدامات کی اپیل بھی ہے۔
یومِ مئی کی تاریخ امریکہ میں انیسویں صدی کی مزدور تحریک سے جُڑی ہوئی ہے۔ صنعتی انقلاب کے دوران محنت کش انتہائی خراب حالات میں کام کرتے تھے۔ انہیں طویل اوقات میں خطرناک ماحول میں کم اجرت پر کام کرنا پڑتا تھا۔ یکم مئی 1886 کو شکاگو میں مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کام کے مطالبے کے حق میں ہڑتال کی۔ یہ پرامن احتجاج بعد ازاں “ہی مارکیٹ سانحہ” کی شکل اختیار کر گیا، جس میں کئی مزدور اور پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ اس افسوسناک واقعے کے باوجود، مزدور تحریک مضبوط ہوتی گئی اور 1889 میں بین الاقوامی سوشلسٹ کانگریس نے یکم مئی کو یومِ محنت کے طور پر تسلیم کیا۔ تب سے یہ دن دنیا بھر میں محنت کشوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی یاد میں منایا جا رہا ہے۔
یومِ مئی ہمیں ان کروڑوں محنت کشوں کی خدمات کو سراہنے کا موقع دیتا ہے جو معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چاہے وہ کارخانے ہوں، کھیت، دفاتر یا اسکول، ہر مزدور ملک کی تعمیر میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دن مزدوروں کے حقوق کے بارے میں آگاہی بڑھانے اور ان کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہے۔ اس دن پر محفوظ کام کے مقامات، مناسب اجرت اور سماجی تحفظ جیسے مسائل کی جانب توجہ دلائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یومِ مزدور مزدوروں کے اتحاد کو فروغ دیتا ہے اور ان کی آواز کو مضبوط بناتا ہے تاکہ وہ اپنے حالاتِ کار میں بہتری کے لیے مؤثر انداز میں مطالبہ کر سکیں۔ یہ حکومتوں اور اداروں کو مزدور اصلاحات کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
پاکستان میں بھی یکم مئی کو یومِ مزدور کے طور پر قومی تعطیل منائی جاتی ہے۔ اس دن کو 1972 میں وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا۔ پاکستان نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی رکنیت بھی حاصل کی، جس کے تحت مزدوروں کے حقوق کو عالمی معیار کے مطابق بہتر بنانے کا عزم کیا گیا۔ ہر سال لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں مزدور یونینز، سیاسی جماعتیں، اور سماجی تنظیمیں شرکت کرتی ہیں۔ یہ اجتماعات مزدوروں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں مزدوروں کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن اب بھی لاکھوں محنت کش مسائل کا شکار ہیں۔ ان میں کم اجرت، غیر محفوظ کام کے حالات، طبی سہولیات کی کمی، اور ملازمت کے تحفظ کا فقدان شامل ہیں۔ غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے والے مزدور، جیسے گھریلو ملازمین، ریڑھی بان اور دیہاڑی دار مزدور، اکثر رجسٹرڈ نہیں ہوتے جس کی وجہ سے انہیں قانونی تحفظ اور سہولیات نہیں ملتیں۔ بچوں سے محنت لینے کا مسئلہ بھی سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں اور چھوٹے صنعتی یونٹس میں۔ یومِ مزدور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ملک میں مزدوروں کے تحفظ اور ان کے حقوق کے نفاذ کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
سال 2025 کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیر قیادت موجودہ حکومت نے مزدوروں کی فلاح کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سب سے اہم قدم کم از کم تنخواہ میں اضافہ ہے، جو اب 37,000 روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے تاکہ محنت کش مہنگائی کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہ سکیں۔ حکومت نے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس انسٹیٹیوشن (EOBI) کو بھی مزید مؤثر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں تاکہ پینشن کی بروقت فراہمی اور مزید محنت کشوں کو اس سہولت میں شامل کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن (NAVTTC) کے ذریعے نوجوانوں اور محنت کشوں کو فنی تعلیم دینے کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں تاکہ وہ بہتر روزگار حاصل کر سکیں۔ حکومت لیبر ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے پر بھی کام کر رہی ہے تاکہ رجسٹریشن کا عمل آسان اور شفاف ہو۔ اس میں غیر رسمی شعبوں کے محنت کشوں کی NADRA جیسے قومی ڈیٹا بیس سے رجسٹریشن بھی شامل ہے۔
کام کی جگہ پر حفاظت کے حوالے سے بھی اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر تعمیراتی اور کان کنی کی صنعتوں میں۔ حکومت بین الاقوامی اداروں، بشمول ILO، کے تعاون سے سیفٹی قوانین کو مؤثر انداز میں نافذ کرنا ہے۔ خواتین محنت کشوں کو بااختیار بنانے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انہیں روزگار کے زیادہ مواقع ملیں اور دفاتر میں انہیں ہراسانی سے محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔
اگرچہ ان اقدامات سے بہتری کی امید ہے، لیکن اب بھی کئی مسائل موجود ہیں۔ بہت سے محنت کش اپنے حقوق سے آگاہ نہیں، اور لیبر قوانین کا نفاذ بھی اکثر کمزور ہوتا ہے۔ یومِ مزدور حکومت کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ ان مسائل پر غور کرے اور ملک کے ہر شعبے میں بہتر حالاتِ کار کے لیے مزید اقدامات کرے۔
یومِ مئی نہ صرف ایک تعطیل ہے بلکہ محنت کشوں کی قربانیوں اور خدمات کو سلام پیش کرنے کا دن ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی طاقت اس کے محنت کش طبقے میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں جہاں بہت سے مزدور اب بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، وہاں یومِ مزدور صرف تقاریر اور علامتی سرگرمیوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ یہ دن حقیقی تبدیلی کا ذریعہ بننا چاہیے، جس میں مضبوط پالیسیز، منصفانہ قوانین، اور مسلسل کوششیں شامل ہوں۔ حکومت، آجر، مزدور تنظیمیں، اور سول سوسائٹی کو مل کر ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جہاں ہر محنت کش کو عزت، سہولت اور طاقت حاصل ہو—نہ صرف یکم مئی کو، بلکہ سال کے ہر دن۔
Leave a Reply