گلشن اختر میؤ
ننکانہ صاحب..
میں یہاں فقط اپنی میوات کی بات کرونگی .ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ جہیز ہے. ہماری میوات میں بڑے پیمانے پر ڈپریشن اور بدحالی کی وجہ بھی جہیز ہے.ایک غریب باپ کی لائق بیٹی آگے پڑھنا چاہتی ہے تو اسے ہمارے بڑے اس بنا پر تعاون نہیں کر سکتے کے اس کے جہیز کے لئے پیسہ کہاں سے آئیں گے اگر سارا تمہاری پڑھائی پر خرچ کر دیا.ایک بیٹے کو 18 سال کی ہی عمر میں باہر کےملک بھیج دیا جاتا ہے کے وہ
اپنی بہین, بیٹی کے لئے جہیز کے لئے رزق معاش جمع کرۓ. گویا اسکا بچپن کے خوبصورت لمحے چھین لئے جاتے ہیں . اور پھر کچھ بن جانے پر ہمارے زہین کی اسطرح آبیاری کی جاتی ہے کہ فلاں تمہارے قابل ہے فلاں نہیں.ہم آج کی نوجوان نسل اگر جہیز نا بھی لیں تو ہمارے بڑے اس بات کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جیسے ہم نے کوئی گناہ سرزد کر دیا ہو. لیکن ہم نے اور آپ نے اپنے بڑوں کی رسم و رواج کو توڑنا ہے.اور یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ اس کا آغاز خود سے کریں گے. ہمارے ہاں اس جہیز نے ناصرف بڑوں کو بلکے ہمارے آج کےنوجوان بچوں کو بھی ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے. ہم میوات کا ذیادہ تر طبقہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے . ہم نے ذیادہ تر مستقبل اپنا اپنی زمینوں پر اپنی عمر کا قیمتی سرمایہ خرچ کر کے بنایا ہے. ہم ہر 6 مہینے بعد ہی دن رات کی محنت کا صلہ اپنی لگائی گئی فصل پر دیکھتے ہیں.اور وہ رب آسماں پر ہوتا ہے کہ اپنے ابرے کرم کو رحمت بنا کر برسائے یا زحمت.مطلب ہماری زمینوں پر رزق کو کبھی سیلاب کی صورت میں تو کبھی آگ کی صورت میں تو کبھی پانی ہی کمی میں ختم ہو جاتی ہے.اس بار 2024 میں گندم کا ریٹ کم رہا تو جو ہمارے غریب ماں باپ اپنے بچوں کا مستقبل بناتے یا اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ رخصت کرتے نہیں کر پائے وجہ جہیز. وجہ بے روزگاری ہی ہے. میں ایک لڑکی ہو کر فقط اتنا ہی کر سکتی ہوں کہ اپنے قلم زور سے اس رسم کو ختم کروں اور اپنی زندگی کا ساتھی اسے چنوں جو اس سفر میں میرا ساتھ دے. لیکن آپ مرد ہو کر اس رسم کا توڑ باآسانی کر سکتے ہیں. ہمارے اپنے بڑوں کو پتا ہی نہیں اس جہیز کی رٹ نے بچوں کو ڈپریشن کا شکار کر دیا ہے ہم خوش ہونا چاہتے ہیں ہم زندگی کو بھر پور جینا چاہتے ہیں. لیکن ہمیں ہماری رسم و رواج جہیز جیسی لعنت نے جکڑا ہوا ہے. ہمارے والدین کے پاس اتنا رزق ہے کے وہ خوشحال اور مثالی زندگی بسر سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی جہیز کی فکر میں مبتلا کر دیا ہے.ایک بیٹا یا بیٹی پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں تو بیٹے کے لئے ایسا گھر ڈھونڈا جاتا ہے جہاں موٹر بائیک اور کار ڈھیروں جہیز مل سکے. بیٹی کی رخصتی پر اتنا دیا جاتا ہے جیسے اسے فروخت کیا ہو اور پھر بعد میں حساب کتاب کرنے پر ہمارے ہی والدین مقروض ہو کر ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں. لیکن اب ایسا نہیں ہو گا میں نے, آپ نے اور ہم نے اس میوات کی رسم کو ختم کرنا ہے. زمانہ بدل رہا ہے اور ہم نے زمانے کو بدلنا ہے. ہم نے اپنے بڑوں کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو اس جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا دلانا ہے اگرچہ یہ رسم توڑنا میوات میں مشکل ہے لیکن ناممکن تو نہیں. آپ تو ابن آدم ہیں .آپکی ہی پسلی سے بنت حوا نے جنم لیا ہے. کیا آپ اس رسم کو توڑنے میں میرا ساتھ دیں گے ؟؟؟؟
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جنکی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
Leave a Reply