rki.news
بقلم : احمد وکیل علیمی
وزیر اعلی ریاست کا سب سے بڑا اور ذمےّدار سربراہ ہوتا ہے۔ ہر مذہب کے عوام کی عزت، آبرو اور اس کی پاسداری کے ذمے دار وزیر اعلیٰ ہی ہوتے ہیں۔
کوئی خاتون اگر حجا پہنتی ہے تو یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہے۔ لیکن بہار کے وزیر اعلیٰ نے جس طرح ایک مسلم خاتون کا حجاب کھینچ کر زبردستی اس کو بے پردہ اور بے حجاب کرنا چاہا، وہ کسی بھی اعلیٰ و ادنیٰ شخص کا حق نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ کی یہ حرکت ان کی نیت کو متعصبانہ اور بد بختانہ قرار دیتی ہے۔ میرے نزدیک انسانی وقار، مذہبی آزادی اور سماجی شائستگی پر گہرا زخم ہے۔ کسی عورت کے لباس یا شناخت پر ہاتھ ڈالنا محض بدتمیزی نہیں، بلکہ اس کے ذاتی حق اور عزت نفس کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بلا شبہ یہ واقعات معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہیں کہ ہم اختلاف رائے کو برداشت کے ساتھ نبھانے کی بجائے زور آوری کی راہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ قانون کی بالا دستی خواتین کے تحفظ اور طاقت ور کو جواب دہ ٹھرایا جائے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ وہ عورت خواہ کسی لباس میں ہو اسے بے خوف اپنی زندگی جینے کا حق دیا جائے۔ احترام، رواداری اور انصاف ہی وہ اصول ہیں جو ہمیں ایسے واقعات کی تکرار سے بچا سکتے ہیں۔
حجاب محض ایک کپڑا نہیں بلکہ ایک مسلمان عورت کی مذہبی شناخت، شخصی آزادی اور عزت نفس کی علامت ہے۔ کسی بھی فرد کو خواہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کسی خاتون کے مذہبی تشخص یا ذاتی حدود میں مداخلت کرے۔
ایسے طرزِ عمل سے نہ صرف متاثرہ خاتون کی دل آزاری ہوتی ہے بلکہ پورے سماج میں عدم تحفظ، خوف اور بے اعتمادی کو فروغ ملتا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ جیسے اعلیٰ عہدے پر فائز شخص سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ آئین ہند میں درج مذہبی آزادی، شخصی وقار اور دستور کے اصولوں کا سب سے پہلے احترام کرے۔
اگر اقتدار کے ایوانوں سے ہی خواتین، خصوصاً اقلیتی خواتین کی توہین کا پیغام جائے تو یہ جمہوریت کی روح پر کاری ضرب ہے۔ بھارت کی طاقت اس کی کثرت میں وحدت ہے اور اسی وحدت کی حفاظت ریاستی قیادت کی بنیادی ذم دا ہے۔
اس طرح کے گھناؤنے واقعات یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ برتاؤ میں ہماری سماجی حساسیت کہاں کھڑی ہے۔ عورت کا لباس اس کا ذاتی اور مذہبی حق ہے، اس پر زبردستی ہاتھ ڈالنا یا تضحیک کرنا کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔ قانون، اخلاق اور انسانیت تینوں اس رویے کی نفی کرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے واقعات کی غیر جانبدارانہ جانچ ہو، ذمًے داران سے جواب طلبی کی جائے کہ خواتین اور اقلیتوں کی عزت و حرمت ناقابلِ سودے بازی ہے۔ ساتھ ہی سماج کے ہر طبقے کو آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی بھی خاتون کے ساتھ اس نوعیت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکے۔
اگر صدائے احتجاج کو بلند نہیں کیا گیا تو ہم جانتے ہیں کہ ملک کی سیاست انتہائی سُست پیما ثابت ہوئی ہے۔ پاسِ احترام اور آبدیدہ ہماری سیاست سے معدوم ہوتا جارہا ہے۔ کسی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ ہی جب متعصب اور آتش کا پرکالا ثابت ہونے لگے تو پھر آبرو پر حرف آنے کا سلسلہ بن جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ یہ سلسلہ دراز ہو، ہمیں اس معاملے کو متوکّلانہ چھوڑنے کی بجائے منصفانہ طور پر ہر شہری کو اس قسم کی ذلیل حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ایک مثل ہے، مت کر ساس بُرائی، تیرے بھی آگے جائی۔
کئی دن گزر گئے، حیرت اور شرم کی بات ہے کہ ملک کی ذمًے دار شخصیات کے چہرے پر آبِ ندامت بھی نہیں دیکھا گیا۔ وزیرِ اعلیٰ کی مذمّت کرنا تو دور کی بات ہے، ایسی حرکت پر اِس وزیراعلیٰ کے تحت اپنائیت کی بجائے غیریت کی بو ملتی ہے۔
اتر پردیش کے ایک وزیر کو اُس خاتون کی توہین کرنے کے معاملے میں مزہ لیتے دیکھا گیا۔ اس وزیر کا بیان ہے کہ خاتون کے جسم کی کسی دوسری جگہ ہاتھ لگ جاتا تو کیا ہوتا۔ اتر پردیش کے اس وزیر کے بیان سے اس نے خود اپنی آبرو پر پانی پھر جانے کا کام کیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ اتر پردیش کی آنکھوں کا پانی ڈھل چکا ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست آج آبِ خجالت سے دوچار ہے۔ ماب لنچنگ، قتل وغیرہ واقعات کے بعد وزیر اعلیٰ کی مذموم حرکت نے ملک کی اقلیت کے لیے مردم شناسی کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ “ہر گلے رارنگ و بوئے دیگر است” فارسی کی ایک اور مثل ہے کہ “ہرچہ دردیگ است بہ چمچہ خمے آید” جو دل میں ہے وہ زبان پر آتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی نیت کا اعلان کرتی یہ حرکت ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی آزادی و ترقی میں پابجو لاں ثابت ہوسکتی ہے۔
مسلم خاتون کا حجاب کھینچنے کا منظر دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھوں سے خون برسنے لگا نیز مسلمانوں میں بے حد اضطرابی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔
اگر کسی غیر مسلم عورت کے ساتھ بے آبرو کا یہ معاملہ ہوتا تو پورا ملک اُٹھ کھڑا ہوتا۔ لیکن اقلیتوں کے ساتھ اس غیر منصفانہ اور بد بختانہ رویے کا سلسلہ کل بھی تھا، آج بھی جاری ہے۔
مسلمانوں نے دل پر پتھر رکھنا سیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان کمزور ہیں اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ رکھا جائے۔ عورت کی عزت نہ کرنے والے کی شناخت جب بگڑ جاتی ہے تو اللہ بھی اس کی عزت کو بے و ننگ و نام کردیتا ہے۔ بست وکشاد خاموش ہے۔
کسی بھی رہنما نے اظہارِتاسف نہیں کیا ہے۔ جب کہ غیر مسلم عوام کی جانب سے چراغ پا ہونے کی رپورٹ موصول ہورہی ہے۔ دراصل غلط کو غلط کہنے والے ابھی زندہ ہیں۔
Leave a Reply