تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

آخری ملاقات

Articles , Snippets , / Thursday, May 2nd, 2024

کبھی ہوسٹلوں میں آنے والے ملاقاتیوں کے آنے جانے اور اپنے پیاروں سے ملنے ملانے، اور رخصت ہوتے ہوئے لمحات کا تصور کریں آنے والوں کا انتظار جسم و روح میں ایک حرارت بن کے ڈورتا رہتا ہے آنے والوں کے پیارے چہروں کی ایک جھلک ہی ہوسٹل میں رہنے والوں کے لیے زندگی کی بہار جیسی ہوتی ہے کسی پھولوں کے ہار جیسی ہوتی ہے. سچ میں اپنے پیاروں، اپنے خونی رشتوں، اپنے ماں جایوں سے بڑھ کر پیارا رشتہ دنیا میں دوسرا کوئی ہوتا نہیں بھلے ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے اپنے ارد گرد جتنے بھی یار دوست اکٹھے کر لیں سکون ہمیشہ اپنے پیاروں کی سنگت میں ہی ملتا ہے. بھلے آپ دنیا میں بڑے سے بڑا عہدہ بھی حاصل کر لیں، تخت طاوس کے مالک بن جایں. ڈگریوں کے انبار تلے دفن ہو جایں، ایک سے بڑھ ایک لایق فایق اور قابل سنگت میں ہوں مگر مزہ اسی وقت آتا ہے جب آپ کے بچپن کے سنگی ساتھی آپ کے ساتھ والدین کی چھپر چھایا تلے ایک ہی آنگن میں کھیلنے والے آپ کے ساتھ ہوں آپ کے دکھ میں، آپ کے سکھ میں، آپ کے قہقہوں میں، آپ کے آنسوؤں میں، آپ کی آہوں میں اور آپ کی سسکیوں میں. نری طاقت ہوتے ہیں یہ خونی رشتے
یہ خونی رشتے وبال کیوں ہیں
میری وفا پہ سوال کیوں… ہیں
تو خدا را دنیا داری نبھاتے نبھاتے دنیا میں آتے جاتے اپنے پیاروں کو اپنے ساتھ ساتھ رکھیں. تاکہ آپ کو اپنی جان لیوا تنہائی کا سامنا کرتے ہوے تنہائی کا احساس بالکل بھی نہ ہو.،
اپنے بچوں کی خوشیوں اور اپنے بزرگوں کی الوداعی رسومات میں آپ کے اپنے اگر آپ کے شانہ نشانہ ہیں تو آپ دھرتی کے امیرترین انسان ہیں. تو ہوسٹلوں کے ملا قات خانے خوشی، مسکراہٹوں، آنسوؤں ،سسکیوں کی آما جگاہ ہوتے ہیں انتظار کرنے والی آنکھیں ہوسٹل کے گیٹ پہ ہی لگی رہتی ہیں گھروں سے ماں کے ہاتھوں کے بنے ہوے پکوان اپنی محبت کا بول بول کر نقارہ پیٹتے ہیں. مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ماں جو پنجیری بنا کے بھیجتی تھی وہ ہوسٹل کی وارڈن سے لے کر ہوسٹل کی تمام لڑکیاں بڑے شوق سے کھاتی تھیں.
اور دنیا کے سبق سیکھتے ہوئے ہم ماں کی محبت کے تڑکے کا ذکر کرنا کبھی نہ بھولتے تھے
مامتا کے لاڈ
جو ماں بتاتی تھی
وہ لاڈ تھا سب
جو ماں سکھاتی تھی
وہ لاڈ تھا سب
اصل
سبق سیکھا ے دنیا بے
خیر ہوسٹل ہوں ،اییر پورٹ ہوں، بس سٹاپ ہوں، ریلوے اسٹیشن ہوں ہر جگہ پہ رخصت کی شان موجود یوتی یے اور مجھے وہ 17 جنوری 2022 کی وہ رخصت. یاد آ گءی جو ادب کے بہت بڑے نام جناب جبار مرزا صاحب نے اپنی محبوب بیوی شاءستہ جبار رانی کو وداع کے وقت دی تھی اور میں اس پہ یی لکھا تھا کہ
بھول بیٹھی ہوں
میں آنے کی شان
تو نے رخصت کی شان جو دی ہے
کیا محبت بھری زندگی اپنے محبوب شوہر کی سنگت میں گزار کے وہ جا بسی ہیں شیر خموشاں میں.
طارق شاہ سے حادثاتی طور پہ ایک قتل یو گیا دیت دینے کی پوری کو شش کی گءی نگر معاملہ رفع دفع نہ ہو پایا طارق شاہ کو پھانسی کا حکم سنا دیا گیا جیل خانے میں طارق شاہ سے آخری ملاقات کو آنے والے اس کے والدین، بیوی بچوں کی دبی دبی سسکیاں خوف کا نقارہ تھیں
درد کا اشارہ تھیں
اشکوں والی آنکھیں بھی
درد تھیں ہزارہ تھیں.
اعلی تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہوے جہاندار کے قدم بھک رخصت کے وقت لڑکھڑا سے گیے تھے.
پردیسی
جانے کا سوچا تو
تھوڑا گھبرا گیے
ہم نے کھایا تھا خوف
ہم تو سٹپٹا گیے
کیسے رہ پائیں
درد سہہ پاءیں گے
اپنے پیاروں سے دوری
کیا سہہ پایں
ہم تو گھبرا گیے
گلیاں، چوبارے ،نین ہزارے اپنے ہی دیس کے اچھے لگتے ہیں اور جانے والے اپنی خوشی سے تھوڑی جاتے ہیں مجبوریاں دیس نکالا دیتی ہیں
کب سمبھالا دیتی ہیں
پردیسی بابو کی سوچیں
غم کو اشارہ دیتی ہیں
اپنے پیاروں سے پرے
دیس نکالا دیتی ہیں
اور پردیسوں کو الوداع کہنے والے خود بھی الوداع ہو جاتے ہیں
وقت رخصت غزال آنکھوں نے
رقص بسمل کیا کمال….. کیا
جانے والو کب لوٹ آو…. گے
لوگوں نے اک عجب سوال کیا
کاش ملک خداداد کو بغیر ڈکار مارے ہضم کر جانے والے ملک کے بچوں سے کھلواڑ نہ کرتے تو یہ ایر پورٹ پہ ہونے والی بے موسمی بارشیں تو کسی حد تک تھم جاتیں.
اور مجھے ماں جی کی رخصت نہیں بھولتی کتنی مجبور، مرحوم اور بے بس رخصت تھی آنکھیں کسی کے انتظار میں پتھرا چکی تھیں دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا تھا نبض تھم چکی تھی. آنے والوں نے نہ آنا تھا اور جانے والے نے رخت سفر باندھ بھی لیا تھا.
علیحاہ ایک بیس سالہ سندر نار تھی جس کی اپنے محلے ہی کے ایک لڑکے زیب شاہ سے پچھلے دو سال سے یاری تھا عشق کا جادو سر چڑھ کے بولا تھا مگر برا ہو شریکے برادی اور ذات پات کے پھندوں کا زیب کی ماں شاہنی سلمیٰ نے دونوں کے عشق کو کھڈے لین لگا کر ہی دم لیا اور جو آخری ملاقات علیحاہ اور علی زیب کی ہوئی اس نے تو چاند تاروں کو تو رلایا ہی راوی کے سوکھے کناروں کو بھی اشکبار کر دیا
آخری ملاقات
اس سے پہلے کہ بچھڑ جایں ہم
یار آنکھوں سے نکل جائیں ہم
اک ملاقات تو کر لیتے ہیں
جینے کا اذن. نہیں مر لیتے ہیں
دل کی سب باتیں ہی کر لیتے ہیں
مرنے سے پہلے ہی مر لیتے ہیں
آپ سب اپنے اپنے مدار میں خوشیوں کے سنگ رہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International