حالات جیسے بھی ہوں،ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔زندگی خوشگوار بھی ہو سکتی ہے اور ناخوشگوار بھی،مگر کسی بھی حالت میں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔انسان جب اس دنیا میں آیا ہےتواس کو مختلف قسم کی آزمائشوں میں گزرنا ہی پڑتا ہے۔انبیائےکرام اللہ تعالی کےپسندیدہ ہوتے ہیں،مگر ان کو عام انسانوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک تمام انبیاء مختلف قسم کی آزمائیشوں میں گزارے گئے۔کسی نبی کو بھی قوم نےآسانی سے قبول نہیں کیا بلکہ سخت ترین اذیتیں اور تکالیف دیں مگر تمام انبیاءاپنے مشن میں ڈٹے رہے۔کسی پیغمبر کوآگ میں ڈالا گیاتو کسی پیغمبر کو بیماری میں مبتلا کر دیا گیا،کسی پیغمبر کوشہید کیاگیاتو کسی پیغمبر کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کیا گیا،یعنی تمام انبیاء اور پیغمبرمختلف قسم کی سخت آزمائشوں میں گزارے گئےلیکن تمام انبیاء اپنے مقصد سے ایک انچ تک نہ ہٹے۔انبیاء کے علاوہ دوسرے افرادنے بھی مختلف آزمائشوں کا سامنا کیا۔اب بھی آزمائشیں جاری ہیں اور مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔اللہ تعالی قران حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں،”کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی”(عنکبوت۔ آیت2)اس آیت سے سبق ملتا ہے کہ ہم پرآنے والی مصیبتیں ہماری آزمائش کے لیے ہوتی ہیں۔حالات جس طرح بھی ہوں،ان کوایک آزمائش سمجھنا چاہیے۔بیماری، ناداری،مصیبت،بھوک،خوف اور دشمن وغیرہ سےآزمائش میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ان آزمائشوں سے مخلص اور منافق کی تفریق ہو جاتی ہے۔بعض افرادآزمائشوں کومنجانب اللہ سمجھتے ہیں اور اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ ان آزمائشوں سے نکال دے،یوں وہ کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔بعض لوگ شکوہ شکایت شروع کر دیتے ہیں اور اللہ سےکوئی دعا نہیں مانگتے،تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔آزمائشوں کے ذریعے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ایک حدیث کے مطابق،حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”بڑا ثواب،بڑی مصیبت کے ساتھ ہےاور جب اللہ تعالی کسی قوم سے محبت فرماتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے۔پس جو اس پر راضی ہوا اس کے لیے اللہ تعالی کی رضا ہے اور جو ناراض ہوا اس کے لیے ناراضگی ہے “(ترمذی)اس حدیث سے یہ درس ملتا ہےکہ بعض اوقات آزمائشیں اس لیے آتی ہیں کہ بندہ اللہ تعالی کی رضا حاصل کر لے۔معلوم ہوتا ہے کہ آزمائشوں اور مصائب کے ذریعےکھرے کھوٹے کی پہچان ہو جاتی ہے۔بعض افرادان ازمائشوں سے گھبرا کر اللہ تعالی کے شکوے شکایت شروع کر دیتے ہیں اور بعض افراد گھبرا کر خودکشی کر لیتے ہیں۔شکوے شکایت کرنا یاخود کشی کرنا اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔حالات کا ہر حال میں مقابلہ کرنا چاہیے جیسے بھی حالات پیش آئیں۔
مندرجہ بالا تحریر میں وضاحت کی گئی ہے کہ آزمائشیں اللہ کی جانب ایک امتحان ہوتی ہیں،لیکن کچھ ایسی آزمائشیں بھی ہیں جو اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔کئی دفعہ انسان اپنی شامت اعمال کا شکار ہو جاتا ہے۔قرآن حکیم میں ہے”اور تم کو جو مصیبت پہنچی،وہ تمہارے ہاتھوں کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہےاور بہت کچھ تو وہ معاف فرما دیتا ہے”(سورة شوری۔آیت30)اس آیت کے ذریعے سبق ملتا ہےکہ بہت سی آزمائشیں انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر اگر ایک فرد قتل کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اس کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے،تویہ اس کو اپنے کیے کا پھل ملا ہے۔بعض اوقات کوئی فرد بد پرہیزی کر کےکسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کی وجہ سے مصیبت کا سامنا کر رہا ہے۔بعض اوقات انسان کوئی ایسا گناہ کر بیٹھتا ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ایک حدیث کے مطابق،ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے،وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہےاور جو گناہ اللہ تعالی معاف فرما دیتا ہےوہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں”یعنی کئی مصیبتیں انسان اپنے اعمال اور گناہوں کی وجہ سےاپنے سر مول لیتا ہے،حالانکہ کئی گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جھگڑالو شخص جہاں اپنے لیے پریشانیاں کھڑی کر لیتا ہے،وہیں دوسرے بھی اس کی ناگوار باتوں سے پریشان ہوتے رہتے ہیں۔اللہ تعالی مسلمان کوچوری چکاری،غیبت،جھوٹ اور تمام قسم کی برائیوں سے منع کرتے ہیں،لیکن انسان جب ان کواپنا لیتا ہے تو اس کو بھی ان برائیوں کی سزا ملتی ہے۔فرد واحد کی برائی بعض اوقات پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
آزمائشوں کا مقابلہ کرناضروری ہے۔فرداور قوموں پرآزمائشیں آتی رہتی ہیں۔کس قسم کے بھی حالات ہوں،ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔اللہ تعالی کی طرف سےآزمائشیں ہوں یا اپنےاعمال کا نتیجہ ہوں،ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔مصائب کا حوصلے،عزم اورہمت سےمقابلہ کرناچاہیے۔جس قسم کی آزمائش ہو،اس سے گھبرانے کی بجائےسامنا کرنا چاہیے۔جدوجہدسے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔جدوجہد کرنے والے مشکلات پرقابو پا لیا کرتے ہیں۔تاریخ میں ایسے انسانوں کا بھی کثرت سےذکر کیا گیا ہے جو اپنی محنت اور لگن سےکامیابیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوئےاور ایسے انسانوں کی اکثریت کا بھی ذکر ہے جومعمولی سی پریشانی کا مقابلہ نہ کر سکے اور ناکام ہو گئے۔مقابلہ کرنے والےاکثر کامیاب ہو جاتے ہیں۔مقابلہ کرتے وقت حوصلہ بھی بلنداور یقین راسخ ہونا چاہیے۔ٹھیک ہےسروسامان بھی ضروری ہوتا ہے مگرایسے افراد کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے جو صرف اپنے یقین سے کئی معرکے سر کرنے میں کامیاب ہوئے،حالانکہ وہ بے سروسامانی کی حالت میں تھے۔آزمائشوں یا مصائب میں مبتلا شخص اگر شکوہ شکایت کرتا رہے اور کوئی جدوجہد نہ کرے تو وہ ناکام ہوگا۔
آزمائشیں کئی اقسام کی ہوتی ہیں۔کسی کودولت دے کرآزمایا جاتا ہے اور کسی کوغریب رکھ کرآزمایاجاتا ہے۔کسی کوبیماری اور کسی کو تندرستی دے کر آزمایا جاتا ہے۔کئی افراداس آزمائش میں مبتلا کردیے جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کسی پر ظلم ہو رہا ہوتا ہےاور وہ ظلم دیکھ کر بھی خاموش ہوتے ہیں۔ان کی خاموشی ظالم کو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ مزید ظلم کرے۔بعض اوقات ظالم کوظلم کرنے پر مزید اکسایا جاتا ہے۔اب اگر کوئی مسلم ہے یا غیر مسلم،اس کا اخلاقی فرض ہے کہ ظلم کو روکے۔دنیا کو خوبصورت بنانے کے لیےظلم کوروکناضروری ہے۔اب بھی کئی علاقوں میں ظلم کا بازار گرم ہے۔یہ تمام انسانوں کے لیے آزمائش ہے کہ وہ ظلم کوروکتے بھی ہیں یا نہیں؟
Leave a Reply