از :- وقاص علی وکاس
ہم دوستوں نے دوپہر کے کھانے کا منصوبہ بنایا اور قریب ہی واقع کراچی بریانی جانے کا فیصلہ کیا۔ راستے میں ایک بوڑھا شخص گاجر، مولی اور چکندر کاٹ کر بیچ رہا تھا۔ اس کی مہارت دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ کہ وہ گاجر مولی اور چکندر سے مختلف پھولوں کے گلدستوں کی شکل بنا رہا ہے ۔
کراچی بریانی کی دکان پر پہنچ کر ہم نے بریانی کا آرڈر دیا لیکن ویٹر کی بدتمیزی نے ہمیں حیران کر دیا۔ ہماری باری آنے کے باوجود ہماری طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔
اتنے میں ہم نے دیکھا کہ دو پولیس والے بوڑھے شخص کی ریڑھی سے سبزیاں اٹھا کر کھانے لگے۔ یہ دیکھ کر ہمیں بہت افسوس ہوا۔ ایک طرف تو بوڑھا شخص اپنی روزی روٹی کے لیے محنت کر رہا تھا اور دوسری طرف پولیس والے اس کا حق مار رہے تھے۔ اور سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں سے ایک پولیس والے کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔
ہماری توجہ اس منظر سے ہٹ کر دکان کی طرف آئی۔ ہمارے دوست اور دکاندار کے درمیان تلخ کلامی ہو رہی تھی۔ دکاندار ہماری شکایت سن کر اور بھی غصے میں آ گیا۔ اس نے اپنے ملازم کو برا بھلا کہا۔
اس سب کو دیکھ کر میں نے ایک چینی کہاوت کہی: “جس کو مسکرانا نہیں آتا وہ دکان نہ کھولے۔”
یہاں تک کہ پولیس والے بھی جھگڑے میں شامل ہو گئے۔
بجائے ویٹر کی بدتمیزی کو دیکھتے۔ وہ ہمارے ساتھ بدتمیزی کرنے لگے۔ اس تلخ واقعے کے بعد، ہم دوستوں نے بریانی لینے کا خیال ترک کر دیا۔ ہم نے اس بوڑھے شخص کی طرف دیکھا جو بے بسی سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی صاف نظر آ رہی تھی۔ ہم نے اسے کچھ رقم دی اور اسے تسلی دی۔
اس واقعے نے ہمیں بہت متاثر کیا۔ ہم نے سوچا کہ ہمارے معاشرے میں کتنی زیادتیاں ہوتی ہیں اور ہم انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سوچا کہ ہمیں ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
ہم نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ اس پوسٹ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا اور شیئر کیا گیا۔ لوگوں نے اس واقعے پر اپنی اپنی رائے دی۔ کچھ لوگوں نے پولیس والوں کی مذمت کی تو کچھ لوگوں نے دکاندار کی۔
اس واقعے کے بعد، اس علاقے میں ایک مہم شروع ہوئی جس کا مقصد تھا کہ غریب اور مظلوم لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ اس مہم میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا۔
کچھ دنوں بعد، ہم نے سنا کہ اس دکاندار کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور اسے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پولیس والوں کے خلاف بھی ڈسپلینری ایکشن لیا گیا۔
اس واقعے سے ہم نے ایک سبق سیکھا کہ ہمیں ہمیشہ حق اور سچ کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ چاہے ہماری آواز کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، لیکن اگر ہم متحد ہو کر آواز اٹھائیں تو ہم بہت کچھ بدل سکتے ہیں۔
Leave a Reply