rki.news
ہمارا پرانا گھر جس کے صحن کی دیوار کے دوسری طرف “بی بی ستی” کا خاندانی قبرستان تھا جو کم از کم ہمیں خوف میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا۔ دوسرے بھائیوں کو یا تو علم نہ تھا یا انہوں نے اسے قابلِ توجہ نہیں سمجھا ہوگا۔ ہمارا دن میں ایک بار تو ضرور اس سے سامنا ہوتا۔ سامنا کچھ اس طرح کہ جب ہم دوپہری میں کوٹھے پر یعنی اپنی چھت پر پتنگ اڑانے جاتے تو یہ جانتے ہوئے کہ بری بات ہے تجس سے مجبور ہوکر زینے کی آخری سیڑھی کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی کھڑکی کی جھری سے”بی بی ستی” کے آنگن میں بنی قبروں پر ایک نظر ضرور ڈالتے۔ یا جب کبھی اماں اور بڑی آپا پڑوس میں چچا کے جاتیں تو ہمارے منجھلے بھائی آٹے کا حلوہ بناتے، ہمیں چھت پر میر صاحب (ملازم) کی بیڑیوں کےٹوٹے جمع کرنے بھیج دیا جاتا۔ جب حلوہ تیار ہوجاتا تو زینے کی سیڑیوں پر بیٹھ کر پہلے بیڑیوں کے ٹوٹوں کے کش لیے جاتے پھر حلوہ جو حلوہ کم آٹے کی لئی زیادہ ہوتا، کھایا جاتا۔ ہم موقع پاکر اس دوران کھڑکی کی جھری سے دوسری طرف بنی قبروں کو جھانک لیا کرتے۔
ایک دن پتہ نہیں کیسے کچی اینٹوں سے بنی آنگن کی اس دیوار کا ایک حصہ گر گیا۔ اس سے پہلے کہ برابر سے شور شرابا ہوتا ابا دیوار چنوانے کے لیے مزدور بلا لائے ۔ مزدور نے جیسے ہی گری ہوئی دیوار کا ملبہ ہٹایا چیخ مار کر پیچھے ہٹ گیا۔ ہم بھی باقی بھایوں کے ساتھ آنگن میں ہی تھے۔ابا نے ڈانٹ کر ہم لوگوں کو وہاں سے ہٹایا۔ ملبے کے گڑھے کے اندر چھوٹے بڑے ہرطرح کے سانپ ایک دوسرے میں گُتھے کلبلا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر جسم میں پُھریری دوڑ گئی۔ ابا نے ہمیں وہاں سے ہٹھادیا۔ پتہ نہیں ان بہت سے سانپوں اور سپولیوں کا کیا ہوا۔ اس روز ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ سانپ کے بچے کو سپولیا (سنپولیا) کہتے ہیں۔اپنی شروع کی ایک غزل میں ہم نے یہ لفظ یوں استعمال کیا:
جو آستیں میں آپ کی پاتے ہیں پرورش
اک روز ڈس نہ جائیں کہیں یہ سپولیے
دیوار گرنے کے چند روز بعد ہی سے کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے۔
(جاری ہے)
Leave a Reply