از قلم: ام حبیبہ اصغر (سیالکوٹ)
ہم اس دنیا میں اکیلے آۓ، اکیلے ہی زندگی کی آزمائشیں جھیلنی ہیں اور اکیلے ہی اس دُنیا سے بھی کوچ کر جانا ہے۔ اکیلے ہی قبر میں جانا ہے۔ اپنا اپنا حساب و کتاب بھی اکیلے ہی دینا ہے۔ پھر کیوں ہم لوگوں کی فکر کرتے ہیں؟ کیوں ہمیں کوئی بھی کام کرنا ہو، خواہ دنیاوی ہو یا دینی تو یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ہم نیکی کا سوچتے ہیں یا پردہ کرنے کا، تو بعض اوقات لوگوں کا سوچ کر ارادہ ترک کر دیتے ہیں جبکہ ہر ذی روح نے اپنا حساب خود دینا ہے اور ہمارے کسی بھی معاملے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنا۔ تو پھر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کی پرواہ کرنے کی بجائے لوگوں کی پرواہ کریں۔ ہم لوگوں کو راضی کرنے کی خاطر بہت سی نیکیوں کا ضائع کر کے گناہوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور لوگ، رشتے دار پھر بھی خوش نہیں ہوتے ہیں۔ آخر کون ہیں یہ لوگ اور ہمیں کیوں ہے ان کی فکر ؟ ذرا سوچئے کہ کیا آپ کے کیے گئے برے اعمال کے جواب دہ لوگ ہیں یا لوگوں نے آپ کے برے کام یا گناہوں کو اپنے سر لے کر آپ کو بخشوا لینا ہے؟ نہ صرف آخرت میں بلکہ یہاں اس دُنیا میں بھی لوگوں کو تو بس اپنی ہی فکر ہوتی ہے۔ کوئی بھی کسی بھی حال میں آپ سے خوش نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کی کوشش ہونی ہے اپنے گناہ بھی آپ کے ذمے ڈال دیں۔ انہی لوگوں کو آپ کی میت اٹھانے کی جلدی ہو گی۔ لہذا لوگوں کی پرواہ کرنے کی فکر چھوڑ دیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں۔ کیونکہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ جو یہاں آیا ہے اسے مقررہ مدت میں واپس اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہی ہے اور اپنے اچھے یا برے اعمال کی خود ہی اکیلے جزا یا سزا کاٹنی ہے۔ تو پھر کیوں ہم ان لوگوں کی فکر کرتے کرتے اپنا سب کچھ داؤ پر لگاۓ بیٹھے ہیں۔ خُدارا نکلیں اس حصار سے باہر، اپنی ذات کی خود فکر کریں۔ نیکی کریں اور برائی سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں۔ نماز قائم کریں کیونکہ نماز ہی ہر جگہ ہماری شفاعت کرنے میں کام آئے گی۔ عبادات، اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے میں وقت صرف کریں۔ نیکی پھیلائیں۔ برائی کی روک تھام میں اپنا ذاتی کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔
Leave a Reply