آج کل کے ماڈرن پڑھے لکھے الیکٹرانک، جدید دور میں جہاں پوری دنیا بلاشبہ ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے، ہر فیشن ہر جگہ سے صرف ایک ہی کلک کی دوری پہ ہے. لوگ بڑے ہی ہای فای زمانے میں بڑی تیزی سے اپنی اپنی منازل کی جانب رواں دواں ہیں خواتین جہاں دنیا کی کل آبادی کا تقریباً نصف ہو چکی ہیں وہیں تعلیم اور ہنر میں بھی مردوں سے پیچھے نہیں گاڑی کے یہ دو پہیے متوازی چال چلتے ہوے بھی نہ چاہتے ہوے بھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو ہی جاتے ہیں.زمانہ جہالت سے آج کے پڑھے لکھے اور جدید ترین دور میں جہاں تقریباً ہر موذی مرض کا علاج دستیاب ہے ہر مسءلے کا حل ایک کلک پہ ہمارے فون میں موجود ہے لوگ عورت کی اتنی بے تحاشا ترقی، ذہانت اور خوشحالی کے باوجود بھی اسے سامان اور مال و زر سے زیادہ حیثیت دینے پہ آمادہ نظر نہیں آتے وہیں پہ ماوں نے بلکہ کہنا چاہیے کہ والدین نے اپنی بیٹیوں کی تربیت اس طور کر چھوڑی ہے کہ انھیں اپنے اچھے بھلے، اپنے نفع نقصان کا بخیر و خوبی سب پتا ہے تو جہاں مردوں کو اپنے مکمل حقوق سے مکمل طور پر آگاہی ہے بالکل ایسے ہی خواتین کو بھی اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہی حاصل ہے مجھے توقیر فاطمہ کی یہ دوہای نہیں بھولتی جو اس نے اپنی شادی کے ایک ہفتے بعد ہی جگہ جگہ دینی شروع کر دی تھی کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے اپنی ممانی کے ساتھ تعلقات ہیں اور یقین مانیے یہ پرایمری پاس توقیر فاطمہ اتنی باشعور اور بہادر تھی کہ اس ہیجڑے شوہر سے طلاق لے کر دوبارہ ایک شریف رنڈوے تین بچوں کے باپ سے شادی کر کے آج کل خوش وخرم زندگی گزار رہی ہے اور تین عدد سوتیلے بچوں کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ اپنے دو عدد بچوں کی ماں بھی ہے.
اور پھر مجھے سٹاف نبیلا جوزف نہیں بھولتی جو چوتھی شادی کرنے جا رہی تھی اور بھرے مجمعے میں بڑے دھڑلے سے بتاتی تھی کہ اس کا پہلا شوہر نامرد تھا اور اس نے شادی کے اگلے دن ہی اپنے ابا جی کو بتا دیا تھی کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور پھر نبیلہ. جوزف نے باقاعدہ طلاق لے لی تھی اللہ جانے یہ شیر جیسی بہادر خواتین کہاں پای جاتی ہیں اور پھر مجھے حاجرہ ظہور یاد آی. جو اپنے خالہ زاد بیٹے شیری سے لو میرج کے سات سال بعد یہ الزام لگا کے خلع لے بیٹھی تھی کہ شوہر نامرد یے اور اس منصف کی شان دیکھیں کہ اس نامرد کی شادی کے بعد اللہ پاک نے اسے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا اور حاجرہ ظہور شادی ہونے کے باوجود بھی اولاد جیسی دولت سے محروم ہی رہی.
اور پڑھے لکھے، باشعور لوگ اس مرد کو بھی نامرد ہی سمجھتے ہیں جو اپنی عورت پہ ہاتھ اٹھاتا ہے اسے زدو کوب کرتا ہے اس کے اعضاء کو زخمی کرتا ہے اس کی ہڈیاں توڑ دیتا ہے یا اسے جان ہی سے مار دیتا ہے. جیسے کل ایک مشہور سٹیج ایکٹریس کے ساتھ ہوا تو عورتبپہ ہاتھ اٹھاناکسی بھی مرد کی بزدلی کے اوپر مہر ہے اور بے شک اچھے اور خاندانی مرد اپنی عورتوں کی عزت اور جان کے محافظ ہوتے ہیں.
ابا جی شہزیب نامرد اے
وفا اٹھ گءی یا دعا اٹھ گءی
تے اکھیاں چوں ساری حیا اٹھ گءی
اوہ صبر و وفا
اوہ محبت دی چھاں
اک سفنہ ہوی
جانے کتھے گءی
اک دعا سی پر ہن بدعا ہو گءی اے
ان ساری بہنوں، بیٹیوں اور بہووں کو سلام جو اپنے شوہروں کی عزت اور مان رکھتی ہیں اور ان کی غلطیوں کوتاہیوں پہ پردے ڈالتی ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.
Leave a Reply