ہمارا معاشرہ ہمیں شعور کا پہلا زینہ چڑھتے ہی بہت سے تحفظات سے نوازتا ہے۔ احساس کمتری کو بچپن میں ہی ایک ناپسندیدہ بچے کی طرح ہماری جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جسے ہم چاہ کر بھی خود سے الگ نہیں کر پاتے۔ یہاں ہم نے اسے گود سے نکالا یہاں کوئی اپنا ہی آیا اور چند طعنوں سے پھر سے جھولی میں ڈال دیا۔
پھر کچھ عقل مند اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں اس سے جان چھڑانے کے حل کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور وہ حل تو کیا وبال جان زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے بنائے اس دلدل میں ہم آسانی سے دھنستے چلے جاتے ہیں۔ اور ان کی دکانیں چمک جاتی ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتی ہوں ظاہری شکل و صورت کی۔ بھئی یہی تو سب سے پہلا ٹارگٹ ہوتی ہے نا۔ کسی کا رنگ زرا سا بھی دبتا ہوا ہو تو سو نام دیے جاتے ہیں۔ اور شاید یہ نام رکھنے والے جینز صدیوں سے وراثت میں چلتے آ رہے ہیں ۔
تو صاحب عقل لوگوں نے ان کے لیے کریموں ، جراحتوں اور اشتہارات کی بہتات کر رکھی ہے۔ جدھر بھی نظر دوڑائیں تو چمکتا چہرہ پائیں کی صدا گونج رہی ہوتی ہے۔ ہاں جی یہ تو چاند سے چمک چرا کر لاتے ہیں جو خود کسی اور کی روشنی پر انحصار کیے ہوئے ہے۔کبھی سوچا آپ نے کہ یہ کریم بیچنے والے خود کیسے ہوتے ہیں ؟ بیچارے خود سامنے آتے ہی نہیں۔ ایڈ انھی سے کروایا جاتا ہے جو قدرتی حسین پیدا ہوئے ہوں۔جن کو دیکھتے پھر اچھے بھلے خوش شکل چہرے بھی ان کریموں کو لگائے ہی جاتے ہیں۔ چاہے چہرہ سرد خانے میں پڑی لاش کی مانند سفید ہو جائے۔ مگر نہیں ہم تو فلاں برینڈ کی وائٹننگ کریم استعمال کرتے ہیں۔
اب تو ڈاکٹر حضرات بھی اس میدان میں پوری تیاری کے ساتھ اتر آئے ہیں۔ ناک سیدھی ہو جائے گی۔ ( بھئی ہمیں تو پہلے کتے کی دم سیدھی کر کے دکھائی جائے پھر ہی سوچیں گے اتنا پیسہ لگانے کی)۔ چہرے کے کھڈے بھی بھر دیے جاتے ہیں۔ ارے اللّٰہ کے بندو یہ تو زبردست ہو گیا۔ حکومت جو بھی آئے گی پتا ہے کچھ نہیں کرے گی۔ تو تم لوگوں سے ہی گزارش ہے کہ ملک پاکستان کی سڑکوں کے کھڈے ہی بھر دو۔ ہم استطاعت کے مطابق پیسے بھی دیں گے اور دعائیں بھی۔ بوٹوکس پر بات کرتی مگر مجھے یہ چیز انتہائی زہر لگتی ہے سو اسے ایسے ہی چھوڑ دیا کہ یہ کام (بوٹوکس) تو بھڑ ںیچارے بنا کچھ لیے چند سیکنڈ میں ہی کر سکتے ہیں۔
پھر آ گئی بالوں کی بات۔ جناب ہمارا ہئیر آئل اور شیمپو استعمال کیجیے۔ ہفتے بھر میں گز گز لمبے بال (ایک تو میرا یہ ذہن اکرم راہی کا گانا یاد دلانے لگ گیا) خیر تسی گانے کو چھوڑو وہ پھر سہی۔ اشتہارات والی باجیو اور باجو ہمیں ان گزوں کی ضرورت نہیں جناب ہمارے گھر میں لگانے کو جھاڑو موجود ہیں تو ان کا کیا کرنا؟ پھر ان کو صاف رکھنا الگ لیول کیا سیاپہ تو اگر جوئیں آ کر دھما چوکڑی مچا بیٹھیں تو ان کو کون نکالے گا باجیاں کہ باجے؟
یہ جڑی بوٹی ، یہ دوا ، حکیمی نسخہ بس ایک بار آزمائیں اور قد بڑھائیں۔ کیوں جی ہماری عقل گھاس چرنے گئی ہے کیا؟ گھاس سے یاد آیا اگر یہ سب ہمارا قد بڑھا سکتیں تو خود ہی تناور درخت بن جاتیں۔ جڑی بوٹی رہ کر آپ کے ہاتھوں بے رحمی سے قتل نا ہوتیں اور نا آپ کے جھوٹ میں شامل ہونے کا جرم کرتیں۔خوب پھلتی پھولتیں چھتر چھایا دیتیں۔
اس ریمڈی سے تو آپ دو دن میں بھینس سے بکری بن جائیں گے۔ توند کو راتوں رات عینک والا جن چرا کر لے جائے گا۔ ( چاہے خود بیچارہ وزن کے نیچے دب جائے)۔ اور باقی کا ماس ایسے سکڑ جائے گا جیسے کچھوا خول میں بند ہوتا ہے۔ اوہ معذرت غلط مثال ہو گئی۔ نا تو جب بات ہی غلط کی ہو رہی ہے تو میں صحیح مثالیں کہاں سے لاؤں؟ سوال گندم اور جواب چنا ہی ہوگا۔ کیونکہ ہمیں بھی تو چنے سے گندم بننے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔
یہ تو ہوا ہنسی مذاق (بھئی اشتہارات والے غصہ نا ہو جائیں کہ تاشی ہمارے پیچھے ہی پڑ گئی ہے) لیکن اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی احساس کمتری سے نکلنا چاہتے ہیں تو پہلے خود سے شروعات کتنا ہوگی کہ ہم سے یہ کسی کو نا ملے۔ اپنے آپ کو پاک صاف رکھنا اور نکھارنا قطعاً برا نہیں بلکہ ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن اس سب کا جنونی ہونا کوئی اچھی بات نہیں کہ ہم سرجری تک پہنچ جائیں یا کچھ ایسا جو اسلامی اصولوں کے خلاف ہو۔ میرا رب فرماتا ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 95 التين
آیت نمبر 4
ترجمہ:
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔
تفشالا سرور چھینہ
Leave a Reply