تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

احسن امام احسن کی حسن نگارش(اتر پردیش کے قلم کار ) کی روشنی میں

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, April 28th, 2024

نسیم اشک

اس مادیت پسند دنیا میں جہاں زیادہ تر کام غیر مشروط نہیں ہے ،جہاں لوگ نام آوری کے لئے،دنیاوی ترقی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رھے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی جیالے ہیں جو ان سب سے بے نیاز ہوکر صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں کہ کون ان کے بارے میں کیا رائے قائم کرتا ہے لیکن وہ اس بات کی قوی امید رکھتے ہیں کہ ان کا کام کسی صورت رائیگاں نہیں جائے گا اور آنے والے وقت میں ان کی خدمات کا اعتراف آنے والی نسل ضرور کرے گی اور یقیناً کرے گی۔نیک مقصد کے تحت جو کام انجام دئے جاتے ہیں ان کا اجر خالق کائنات ضرور عطا کرتا ہے۔اردو ادب میں ایسے کئی جیالے ہیں جن کا نصب العین ہی زبان و ادب کی خدمت ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ہم عصروں کے کام کو بھی اپنے حیطۂ تحریر میں لاتے ہیں اور دنیا کے سامنے ان کے فن پر روشنی ڈالتے ہیں۔آپ سمجھتے ہی ہوں گے کہ اپنے ہم عصروں یا دوسروں کے فن پر کام کرنا کتنا صبر آزما اور مشکل ہوتا ہے پھر بھی ایسے قلمکار بڑے دل والے ہوتے ہیں بغیر شور شرابے کے اپنا کام کرتے جاتے ہیں ایسے ہی خاموشی سے اردو ادب کی خدمت کرنے والوں میں ایک نام احسن امام احسن کا ہے۔
احسن امام احسن شاعری بھی کرتے ہیں اور نثر نگاری بھی اور دونوں پر ان کی اچھی گرفت ہے۔احسن امام بظاہر خاموش دکھتے ہیں پر ان کا ہنر شور مچاتا ہے۔
احسن امام احسن ایک فعال شاعر و ادیب ہیں جن کی نظریں ماضی ،حال اور مستقبل تینوں پر رہتی ہیں۔ماضی کے تابندہ اوراق کی بازیافت ،حال کی کارکردگی کا تنوع اور مستقبل کے منظر نامے کی پیش قیاسی نے ان کے نگارشات کو حسن بخشا ہے۔
احسن امام احسن کا نام ادب میں معروف نام ہے اکثر و بشتر ان کی تخلیقات اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔زود گو قلم کار ہیں اب تک ان کی چھ کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔جن میں شعری و نثری دونوں ہیں۔ہزاری باغ کا یہ نیواسی اپنی ذات میں بھی ایک باغ آباد کئے ہوئے ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول مسکرا رہے ہیں پر یہاں ان کی حالیہ تصنیف “اتر پردیش کے قلم کار ” کے تعلق سے گفتگو مقصود ہے۔

اترپردیش ملک کی ایک بڑی اور زرخیز ریاست ہے۔مختلف علوم و فنون کی آماجگاہ ہے۔اپنی تہذیب و ثقافت کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔یہ ریاست وسیع النظر اور وسیع القلب بھی ہے۔مختلف زبانوں کے شعراء و ادباء نے اس سرزمین کو گلزار کیا ہے۔ دوسری زبانوں کے ساتھ اردو زبان کے شعراء و ادباء نے بھی گرانقدر ادبی کارنامے انجام دئے ہیں جن کی ایک طویل فہرست تیار ہو سکتی ہے۔یہاں اردو ادب کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور اسی روایت کو آج تک وہاں کے شعراء و ادباء نے بچائے رکھا ہے۔زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اس ریاست کے قلمکاروں کی خدمات کسی صورت فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ہر دور کا المیہ رہا ہے کہ کچھ فنکار وقت اور حالات کی تاریکیوں میں گم ہوجاتے ہیں اور پھر آنے والا زمانہ ان کے نشانات ڈھونڈتا پھرتا ہے ایسی صورتحال میں ان فنکاروں اور فن کے حوالوں سے کچھ تحریری شکل میں محفوظ ہوجائے تو پھر فن اور فن کار دونوں عرصے تک فراموش نہیں کئے جا سکتے۔احسن امام احسن کے اس مجموعہ کو میں اسی تناظر میں دیکھتا ہوں جس میں انہوں نے اترپردیش کے قلم کاروں کا ذکر کیا ہے۔
“اتر پردیش کے قلم کار ” تاثراتی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں پچپن مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔مصنف نے اپنے معاصر ادبی شخصیات کے فن کا بخوبی جائزہ لیا ہے۔ان کی تاثراتی مضامین میں تنقیدی بصیرت کی جھلک ملتی ہے۔احسن امام نے ایک بڑا کام کیا ہے اور تاریخ نویسی میں ایک ماخذ کا اضافہ کیا ہے جب بھی اردو ادب میں اتر پردیش کا نام آئے گا ساتھ ہی ساتھ ان تمام قلم کاروں کا بھی نام لیا جائے گا۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ احسن امام نے اپنے عہد کی ایک ادبی تصویر کھینچ لی ہے جس کی قدر و منزلت کا پتا آنے والے وقت میں چلے گا۔
مجموعے میں شامل مضامین مطالعے کے متقاضی ہیں۔ان مضامین کے مطالعے سے جہاں اتر پردیش کےشعراء و ادباء سے سناشائی کی ایک صورت نکلتی ہے وہاں ہم ان کے فن اور شخصیات کے تعلق سے بہت معلومات حاصل کرتے ہیں۔موصوف نے ان شعراء و ادباء اور ان کے فن پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ان خوبیوں کے ساتھ احسن امام احسن کا اسلوب بہت متاثر کرتا ہے۔ ان کی تحاریر میں کہیں شدت پسندی نہیں دکھائی دیتی،نہایت شگفتگی کے ساتھ قاری کے اذہان تک اپنی بات پہنچانے کا مادہ رکھتے ہیں۔ان کے مضامین کے مطالعے سے یہ بھی سامنے آتی ہے کہ موصوف کی تنقیدی بصیرت رکھتے ہوئے بھی اپنی تحریروں میں توازن قائم رکھا ہے۔میں ان کے انداز بیان سے جتنا متاثر ہوا اتنا ان کی تخلیقی شعور کی پختگی سے بھی ،ان کے یہاں زندگی کا ایک مثبت نظریہ ہے اور ۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔‌یہ بہت اہم ہے۔آسانی سے بات کرنی ہو تو آسانی نہیں ہوتی۔معرب اور مفرس ،ثقیل الفاظ کی بھر مار میں مصنف لفظوں سے الجھ پڑتا ہے اور قاری مفہوم سے۔احسن امام احسن کی تحاریر کی سادگی ہی ان کی تخلیق کی دلکشی کا سبب ہے۔
اپنے پہلے مضمون میں انہوں نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے تعلق سے اپنی مراسم اور ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کیا ہے اور بڑی صاف گوئی سے ان سے فیضیاب ہونے کا اعتراف کیا ہے۔انہون نے موصوف کی ان تمام پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے جن سے ایک قد آور شخص کی قلمی تصویر ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے تعلق سے احسن امام رقم طراز ہیں۔
“ڈاکٹر تنویر احمد علوی طالب علموں سے اتنا گھل مل گئے تھے کہ کلاس کا کوئی طالب علم ذرا سی بھی دیر کرتا تو اس کے بارے میں پوچھتے ،آج فلاں نہیں آیا ہے ؟ایک بار صبح کے وقت ان سے ملنے کے لئے ڈاکٹر جلیل اشرف کے یہاں گیا تو دیکھا کہ لان میں علوی صاحب قرآن کا ہندی ترجمہ کر رہے تھی ۔شاہینہ ارم بیٹھ کر لکھ رہی تھیں۔”
درج ذیل اقتباس میں احسن امام نے کتنی سادگی سے اپنے ممدوح کی عظمت کا بیان کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک مقبول اور ذمہ دار استاد تھے بلکہ دوسری زبانوں پر بھی دسترس رکھنے والے ایک باشعور اور باصلاحیت شخص بھی تھے۔

“دل تاج محلی کی نظر میں تاج محل “ایک منفرد مضمون ہے۔ہر خاص و عام کو تاج محل پسند ہے اس کی کہانیاں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔تاج محل کے تعلق سے مختلف نظریات ہیں کچھ حقیقت ہے تو کچھ فسانہ۔موصوف نے دل تاج محلی جو تاج کے سامنے رہتے ہیں یقیناً وہ بارہا تاج کو نہارتے ہوں گے موصوف نے ان کے مضمون سے وہ اقتباسات پیش کئے ہیں جو بڑے دلچسپ بھی ہیں اور معلوماتی بھی۔دل تاج محلی نے کئی کار آمد نقطے بھی پیش کئے ہیں جن کو مصنف نے اپنے مضمون میں درج کیا ہے۔ مجموعے میں شامل مضامین دستاویزی حیثیت رکھتے ہیں۔آنے والے کل میں ان تحاریر کی حیثیت تاریخی ماخذ کی ہوں گی۔

احسن امام نے اپنے اس مجموعے کو مختلف اصناف سخن پر کام کرنے والے فن کاروں سے سجایا ہے جو ان کی وسیع النظر ہونے کی دلیل ہے۔غزل گوئی، نثر نگاری،نعت گوئیافسانہ نگاری ،تنقید نگاری وغیرہ تمام شعبوں سے قلم کاروں کا انتخاب کیا ہے۔ احسن امام نے جن فن کاروں پر قلم اٹھایا ہے ان پر انہوں نے دل جمعی سے کام کیا ہے اور اپنی رائے کو تقویت دیتے ہوئے مشاہیر ادب کے آراء کو بھی پیش کیا ہے چونکہ مجموعے میں شامل تمام مضامین کے تعلق سے گفتگو طویل ہوگی لہذا ایک سری نگاہ ڈالنے پر یہ بات روز روشن کی عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ مجموعہ قابل قدر اور اہم ہے جس سے آنے والی نئی نسل ضرور استفادہ کرے گی۔زبان و بیان کی دلکشی نے مضمون کو رعنائی عطا کی ہے۔مضامین کے عناوین اور تعارف بے حد متاثر کرتا ہے۔احسن امام نے فن کاروں کا قاری سے روبرو کرانے کی عمدہ کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔جس لگن و محنت کے ساتھ وہ ادب کی خدمت کر رہے ہیں بلا شبہ ایک بڑی خدمت ہے۔
مالک بحر و بر ان کے قلم کو تابندگی بخشے اور وہ مذید ادب کی خدمت انجام دیتے رہیں۔مجھے یقین ہے احسن امام احسن کے اس مجموعے کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا اور داد و تحسین سے نوازا بھی جائے گا۔

نسیم اشک
جگتدل,24پرگنہ (شمال) ،مغربی بنگال


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International