rki.news
مبصّر : احمد وکیل علیمی
دوردرشن کولکاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستورات کا جنسی استحصال تقریباً ہرملک کی ریاستوں کا سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ انسانیّت اور آدمیّت دُنیا سے رفتہ رفتہ رخصت ہورہی ہے۔ خاص طور پر عورتیں مختلف لحاظ سے عتاب اور مظالم کا شکار ہورہی ہیں۔ظالم اور حریص ساس، شوہر، علاقے کے اوباش قسم کے نوجوانوں کے ہاتھوں، ہسپتال ، دفاتر، تعلیم گاہیں اور مقدّس مقامات پر بھی صنف نازک کو پامال کرنے کی ناپاک وارداتیں پڑھ کر آنکھیں زمین سے لگ جاتی ہیں۔
احمد آباد میں جنسی استحصال سے بچنے کے لیے جس قسم کا مشورہ
پڑھنے کو مِلا ہے، وہ مشورہ اگر مذہب اسلام کی جانب سے دیا گیا ہوتا تو ایک بڑا گروپ اس تجویز کے خلاف صف آراء نظر آتا نیز حجاب اور گھر سے باہر نہ نکلنے کی قید بندی کے خلاف مختلف برادری سے تعلق رکھنے والی عورتیں مثل” آئی بی عاقلہ سب کاموں میں داخلہ”(ناواقف مگر کام میں دخل دینے والی عورت) کے مصداق غصّے سے بھوُت ہوجائیں گی۔ غیر مسلم عورتوں کے اعتراضات تو الگ مسلمان عورتوں کی ایک ٹولی حجاب اور گھر میں رہنے کے خلاف ہیں۔ جب کہ عورت کا معنی ہی ” پردے میں رہنے والی چیز” ہے۔ لیکن اسلام نے ضرورتاً گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی دی ہے۔
احمد آباد میں لگائے گئے پوسٹر میں یہ بات بھی لکھی گئی ہے کہ مستورات رات میں منعقد ہونے والی کسی بھی تقریب میں شرکت کرنے ، تنہا باہر نکلنے سے گریز کریں۔ یہ سب باتیں تو ازل سے ہمارے اللہ اور رسول بتا چکے ہیں۔ اب اگر اسلام کے حوالے سے احمد آباد والوں کو یہ حکمت بتائی جائے تو آسمان سر پر اُٹھانے کے لیے تیاّر ہوجائیں۔ ویسے اب تقاضا یہ ہے کہ پابندی اور حجاب کا لحاظ رکھتے ہوئے مستورات کو باہر نکلنا ان کی اور ہماری معاشرت کی مجبوری و ضرورت بھی ہے کہ ہم بعض کاموں میں صرف اور صرف عورتوں کا ہی دخل پسند کرتے ییں۔ ہماری لڑکیوں کو ٹیوشن دینے والا مرد نہیں عورت ہو، عورتوں کے امراض کی دیکھ ریکھ اور دورانِ حمل کے تمام امور عورت ہی انجام دیں وغیرہ وغیرہ ۔ حالاں کہ یہ ممکن نہیں ہے ، لیکن اس کو بہت حد تک ممکن بنانے کے لیے ہمیں لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنانے کی غرض سے گھر سے باہر بھیجنا ہی ہوگا اور گھر سے باہر بھیج کر ہمیں
” غیر متوقع” حالات کے لیے تیّار بھی رہنا پڑے گا۔ یہ نصیب اور اتفاق کی بات ہوگی کہ
حاشا لرّحمٰن کوئی ناخوشگوار واقعہ لڑکیوں کے ساتھ پیش نہ آئے۔ زندگی حادثوں کا بھی نام ہے۔ حادثوں سے ڈر کر سفر کرنا بند نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں، سفر میں حادثات کے امکانات کو ختم کرنا یا بہت حد تک کم کرنا ، یہ ہماری حکومت کے ساتھ غم فزا واقعات پیش آنے والے علاقے کے ہر فرد کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ متحد ہوکر حکومت کے ساتھ تعاون کرنا زندگی کا نصب العین بنا لیں۔
جہاں چاہ وہاں راہ۔
ایک مرتبہ ملک کی راجدھانی دہلی میں چھیڑخانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر پولس کے محکمہ نے اس کے خلاف ایک خصوصی مہم چلائی اور اس کام کے لیے خواتین پولس کو میدان میں اُتارا گیا۔جب اس مہم کا تجزیہ کیا گیا اور اس کو مشاہدے اور مطالعے کی شکل دی گئی تو درج ذیل دلچسپ حقائق سامنے آئے۔
“The eve- teasers told the Police that looks of the girl mostly drove Them coming to commit the offence. At least 173 girls who were standing alone became
vic, tims. Clothes became the ” Provocation” in only 10 cases. ”
“چھیڑ خانی کرنےوالوں نے پولس کو بتایا کہ اکثر و بیشتر کسی لڑکی کی ظاہری خوب صورتی نے انہیں اس جُرم کےاِرتکاب کے لیے مہمیز کیا۔ کم ازکم 173 لڑکیاں جو اس زیادتی کا شکار ہوئیں وہ ایسی تھیں جو اکیلی کھڑی تھیں۔ جب کہ صرف دس معاملات لڑکیوں کے نا مناسب لباس نوجوانوں کو بھڑکانے کا سبب بنے۔ ”
اسلام کی نجات دہندہ تحریک نے ناموس نسواں کی حفاظت کے لیے شرم و حیا ، لباس اور پردے اور تنہا سفر سے گریز کی جو تعلیم دی ہے وہ طبقہ خواتین کو چھیڑخانی کی اس آفت سے بچانے کا بھر پور سامان فراہم کرتا ہے۔
احمد آباد میں جنسی استحصال کی بندش اور روک پر جس گروپ نے بھی تجویز پیش کی ہے ، وہ گروپ عورتوں کے تئیں مخلص اور ہمدردری کا مظاہرہ کر رہا ہے لیکن اس گروپ کی تجویز آج کاترقّی یافتہ دور قبول نہیں کرے گا۔ اگر سب کو قبول اور پسند ہو تو حجاب اور پردے کے تعلق سے اسلام نے جو تعلیم دی ہے ، اس کے احکام کی تعمیل میں ہی عورتیں محفوظ رہ سکتی ہیں۔ اسلام کی تعلیم پر چلتے ہوئے بھی عورتیں اپنی تعلیم اور ضرورتوں کی تکمیل کو بروئے کار لانے میں بامراد ہو سکتی ہیں ۔
عورتوں کے جنسی استحصال کے تعلق سے ہرریاست کی حکومت کو سنجیدہ ہوکر مثبت قدم اُٹھانے کی فکر کرنی چاہیے۔ عورتوں کو تحفظ اور عزّت فراہم کرنا ملک اور عوام الناس کی ذمہ داری ہے۔
Leave a Reply