تازہ ترین / Latest
  Thursday, January 9th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

احمد شاہ ابدالی: جنوبی ایشیا کی تاریخ کے معمار

Articles , Snippets , / Wednesday, January 8th, 2025

(تحریر: احسن انصاری)

احمد شاہ ابدالی، جنہیں احمد شاہ درانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اٹھارویں صدی کی سب سے بااثر شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم فوجی رہنما تھے بلکہ ایک قابل حکمران اور سیاستدان بھی تھے۔ انہوں نے درانی سلطنت کی بنیاد رکھی اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان کی فتوحات اور قیادت نے انہیں “جدید افغانستان کے بانی” کا خطاب دیا، اور ان کی میراث آج بھی افغان اور جنوبی ایشیائی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ احمد شاہ ابدالی 1722 میں ملتان کے قریب ایک پشتون سدوزئی قبیلے میں پیدا ہوئے، جو اس وقت مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا اور آج پاکستان میں واقع ہے۔ ان کے والد، محمد زمان خان، ایک ممتاز سردار تھے، لیکن احمد شاہ کی ابتدائی زندگی والد کی وفات کے بعد مشکلات اور سیاسی تنازعات سے بھرپور تھی۔ یہ حالات احمد شاہ کے لیے زندگی کے سخت چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری کا سبب بنے۔ احمد شاہ نے کم عمری میں ہی فارس کے مشہور بادشاہ نادر شاہ کی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 19 سال کی عمر میں، وہ اپنی بہادری اور حکمت عملی کی وجہ سے نمایاں ہوئے۔ نادر شاہ نے ہندوستان پر 1739 میں حملہ کیا، اور اس مہم میں احمد شاہ کا کردار اہم رہا۔ اس دوران، وہ نادر شاہ کا اعتماد جیت کر ابدالی افواج کے کمانڈر مقرر ہوئے۔

نادر شاہ کے قتل (1747) کے بعد، احمد شاہ نے افغان قبائل کو متحد کرنے کا موقع دیکھا۔ انہوں نے قندھار میں قبائلی جرگہ بلایا، جہاں انہیں بادشاہ منتخب کیا گیا، اور اس طرح درانی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نئی سلطنت نے ایک طاقتور اور متحد افغان ریاست کی تشکیل دی، جو موجودہ افغانستان، پاکستان، مشرقی ایران، اور شمالی ہندوستان کے کچھ حصوں پر محیط تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنی سلطنت کی توسیع اور استحکام کے لیے متعدد فوجی مہمات انجام دیں۔ ان کی سب سے مشہور مہمات میں مغلیہ سلطنت، مرہٹہ کنفیڈریشن، اور ابھرتے ہوئے سکھوں کے خلاف جنگیں شامل ہیں۔ 1748 سے 1767 کے درمیان، احمد شاہ نے ہندوستان پر متعدد حملے کیے۔ یہ حملے اقتصادی فوائد، حکومتی کنٹرول، اور زوال پذیر مغلیہ سلطنت پر اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کیے گئے تھے۔ ان کے سب سے بڑے کارناموں میں سے ایک دہلی کی فتح (1757) تھی، جہاں انہوں نے کوہ نور ہیرا سمیت بے پناہ دولت حاصل کی۔

1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ احمد شاہ کی سب سے اہم فتح تھی۔ یہ جنگ مرہٹہ اتحاد کے خلاف لڑی گئی، جو جنوبی ہندوستان کی ایک طاقتور قوت تھی۔ احمد شاہ نے افغان قبائل اور مقامی اتحادیوں کی مشترکہ افواج کی قیادت کی اور مرہٹوں کو زبردست شکست دی۔ یہ جنگ اٹھارہویں صدی کی سب سے بڑی اور خونریز جنگوں میں سے ایک تھی، جس نے جنوبی ایشیا کی سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔ مرہٹوں کی شکست نے انہیں کمزور کر دیا، اور مغلیہ سلطنت کو عارضی طور پر افغان اثر و رسوخ کے تحت استحکام ملا۔

احمد شاہ نے پنجاب میں ابھرتی ہوئی سکھ طاقت کے خلاف بھی مہمات چلائیں۔ انہوں نے لاہور اور امرتسر جیسے اہم شہروں کو فتح کیا، لیکن سکھوں نے ان کی حکومت کے خلاف مسلسل مزاحمت کی۔ احمد شاہ کی وفات کے بعد، سکھوں نے خطے میں اپنی طاقت کو مضبوط کیا اور غالب قوت کے طور پر ابھرے۔ احمد شاہ صرف ایک فاتح نہیں تھے بلکہ ایک مؤثر منتظم بھی تھے۔ انہوں نے اپنی سلطنت میں تجارت کو فروغ دیا، انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا، اور ثقافتی احیا کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی حکمرانی کے دوران، فنون لطیفہ، ادب، اور تعمیرات کو خاص اہمیت دی گئی۔ احمد شاہ نے قبائلی اتحاد کا نظام متعارف کرایا، جس کے ذریعے مختلف افغان قبائل کے درمیان توازن برقرار رکھا گیا۔ یہ نظام ان کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ فوجی مہمات میں کامیابی کے لیے بھی مؤثر ثابت ہوا۔

احمد شاہ ابدالی 1772 میں 50 سال کی عمر میں قندھار میں انتقال کر گئے۔ انہیں قندھار میں ہی دفن کیا گیا، جہاں ان کا مقبرہ آج بھی موجود ہے۔ یہ مقبرہ افغانستان کی تاریخ اور ثقافت کے ایک اہم نشان کے طور پر جانا جاتا ہے اور ہر سال ہزاروں لوگ ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔ احمد شاہ ابدالی کی میراث جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ان کی فتوحات نے نہ صرف جدید افغانستان کی بنیاد رکھی بلکہ افغان قبائل کے درمیان اتحاد اور شناخت کا بھی احساس پیدا کیا۔ ان کے حملوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کو تیز کیا اور مرہٹوں کے عروج کو روک دیا۔ اس کے نتیجے میں خطے میں طاقت کا خلا پیدا ہوا، جسے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پر کیا۔ احمد شاہ نے نہ صرف سیاسی میدان میں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ فنون اور ادب کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

احمد شاہ ابدالی تاریخ کے ایک عظیم فاتح اور مدبر حکمران تھے، جنہوں نے اپنی جنگی حکمت عملی اور ریاستی کاری سے جنوبی ایشیا کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کو بدل دیا۔ ان کی قیادت آج بھی افغانوں کے لیے ایک مشعل راہ ہے، اور ان کی میراث تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ احمد شاہ ابدالی کا دور اس بات کا ثبوت ہے کہ مضبوط قیادت اور حکمت عملی ایک قوم کی تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ ان کا کردار، ان کی کامیابیاں، اور ان کا وژن ایک ایسے دور کی نمائندگی کرتے ہیں، جہاں قیادت کا مطلب صرف فتح نہیں بلکہ عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا بھی تھا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International